شیطان نے ان کے بارے میں اپنا گمان سچا کر دکھایا کہ یہ لوگ سب کے سب اس کے پیروی کریں گے سوائے مومنوں کی ایک جماعت کے حالانکہ شیطان کا ان پر کوئی زور نہیں تھا یہ سب کچھ اس لئے ہوا تاکہ ہم معلوم کرلیں کہ کون ان میں سے آخرت پر پختہ ایمان رکھتاہے اور کون اس بارے میں شک میں پڑا رہتا ہے اور آپ کا ربّ ہر چیز پر نگران ہے
( سورة سبأ 20 ,21 )
جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کرکے فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا تو ابلیس نے سجدے سے انکار کردیا تھا
اور جب آدم و ابلیس کی آپس میں ٹھن گئی تو ابلیس آدم کو چکمہ دینے پر اور اللہ کی نافرمانی پر اکسانے میں کامیاب ہوگیا
تو اس وقت ہی اس نے یہ خیال ظاہر کردیا تھا اور اللہ تعالیٰ کو برملا کہہ دیا تھا کہ میں اولاد آدم کے اکثر حصے کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گا اور بس تھوڑے ہی تیرے ایسے بندے ہوں گے جو تیرے شکرگزار بن کر رہیں گے
ابلیس کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں کہ وہ زبردستی لوگوں کو اللہ کی راہ سے اپنی راہ پر ڈال دے وہ صرف یہی اختیار رکھتا ہے کہ انسان کے دل میں وسوسہ ڈال سکے اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کرسکتا
شیطان کے انسان کو گمراہ کرنے کے سب سے زیادہ موثر تین طریقے ہیں ایک یہ کہ وہ انسان کو شرک کی نئی سے نئی راہیں بڑے خوبصورت انداز میں پیش کرتا ہے
دوسرے اسے عقیدہ آخرت کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کردیتا ہے یا عقیدہ آخرت میں ایسے جزوی عقائد شامل کردیتا ہے کہ عقیدہ آخرت کا اصل مقصد ہی فوت ہوجائے اور عقیدہ آخرت کا صحیح مفہوم ہی وہ چیز ہے جو انسان کو سیدھی راہ پر قائم رکھ سکتا ہے
عقیدہ آخرت کے سوا کوئی دوسری چیز ایسی نہیں ہے جو اس دنیا میں انسان کو راہ راست پر قائم رکھنے کی ضامن ہو سکتی ہو اگر کوئی شخص یہ نہ مانتا ہو کہ اسے مر کر دوبارہ اٹھنا ہے اور اپنے خدا کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے
تو وہ لازماً گمراہ و بد راہ ہوگا کیونکہ اس کے اندر سرے سے وہ احساس ذمہ داری پیدا ہی نہ ہو سکے گا جو آدمی کو راہ راست پر ثابت قدم رکھتا ہے
اسی لیے شیطان کا سب سے بڑا حربہ جس سے وہ آدمی کو اپنے پھندے میں پھانستا ہے یہ ہے کہ وہ اسے آخرت سے غافل کرتا ہے اس کے اس فریب سے جو شخص بچ نکلے وہ کبھی اس بات پر راضی نہ ہو گا کہ اپنی اصل دائمی زندگی کے مفاد کو دنیا کی اس عارضی زندگی کے مفاد پر قربان کر دے
بخلاف اس کے جو شخص شیطان کے دام میں آ کر آخرت کا منکر ہو جائے یا کم از کم اس کی طرف سے شک میں پڑ جائے اسے کوئی چیز اس بات پر آمادہ نہیں کر سکتی کہ جو نقد سودا اس دنیا میں ہو رہا ہے اس سے صرف اس لیے ہاتھ اٹھا لے کہ اس سے کسی بعد کی زندگی میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے
دنیا میں جو شخص بھی گمراہ ہوا ہے اسی انکار آخرت یا شک فی الآخرۃ کی وجہ سے ہوا ہے اور جس نے بھی راست روی اختیار کی ہے اس کے صحیح طرز عمل کی بنیاد ایمان بالآخرۃ ہی پر قائم ہوئی ہے
اور جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر پختہ یقین رکھتے ہیں وہ اس کے چکمے میں نہیں آتے اور کبھی آبھی جائیں تو انہیں جلد ہی اس بات کا احساس ہوجاتا ہے اور فوراً پھر اللہ کی طرف پلٹ آتے ہیں
اس کا تیسرا وار اس کے لباس پر ہوتا ہے اور وہ لوگوں کو عریانی، بےحیائی اور فحاشی کی راہیں خوبصورت انداز میں دیکھاتا رہتا ہے
یعنی اللہ یہ بات بھی خوب جانتا ہے کہ اس نے ابلیس کو کس حد تک لوگوں کو گمراہ کرنے کا اختیار دے رکھا ہے اور وہ یہ خوب جانتا ہے کہ ابلیس صرف ان لوگوں کو ہی گمراہ کرسکتا ہے جو پہلے سے شیطان کے اشارے کے منتظر بیٹھے ہوتے ہیں
یعنی شیطان کو اللہ نے کوئی ایسی طاقت نہیں دی ہے کہ وہ انسانوں پر زبردستی مسلط ہو کر ان کو نافرمانی پر مجبور کردے
البتہ اللہ نے اسے صرف بہکانے کی صلاحیت دی ہے جس سے دل میں گناہ کی خواہش ضرور پیدا ہوجاتی ہے
مگر کوئی شخص گناہ اور نافرمانی پر مجبور نہیں ہوتا اور اگر کوئی شخص عقل اور شریعت کے مطالبے پر ڈٹ جائے تو شیطان کچھ بھی نہیں کرسکتا اور یہ صلاحیت بھی اس کو صرف اس لئے دی گئی ہے کہ اس کے ذریعے انسانوں کی آزمائش بھی مقصود تھی کہ کون ہے جو آخرت کی زندگی کو پیش نظر رکھ کر شیطان کی بات رد کردیتا ہے اور کون اسے مان لیتا ہے
اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے ہر قسم کے وار سے مخفوظ فرمائیں آمین
Nafees Quran
شیطان نے ان کے بارے میں اپنا گمان سچا کر دکھایا کہ یہ لوگ سب کے سب اس کے پیروی کریں گے سوائے مومنوں کی ایک جماعت کے حالانکہ شیطان کا ان پر کوئی زور نہیں تھا یہ سب کچھ اس لئے ہوا تاکہ ہم معلوم کرلیں کہ کون ان میں سے آخرت پر پختہ ایمان رکھتاہے اور کون اس بارے میں شک میں پڑا رہتا ہے اور آپ کا ربّ ہر چیز پر نگران ہے
( سورة سبأ 20 ,21 )
جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کرکے فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا تو ابلیس نے سجدے سے انکار کردیا تھا
اور جب آدم و ابلیس کی آپس میں ٹھن گئی تو ابلیس آدم کو چکمہ دینے پر اور اللہ کی نافرمانی پر اکسانے میں کامیاب ہوگیا
تو اس وقت ہی اس نے یہ خیال ظاہر کردیا تھا اور اللہ تعالیٰ کو برملا کہہ دیا تھا کہ میں اولاد آدم کے اکثر حصے کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گا اور بس تھوڑے ہی تیرے ایسے بندے ہوں گے جو تیرے شکرگزار بن کر رہیں گے
ابلیس کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں کہ وہ زبردستی لوگوں کو اللہ کی راہ سے اپنی راہ پر ڈال دے وہ صرف یہی اختیار رکھتا ہے کہ انسان کے دل میں وسوسہ ڈال سکے اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کرسکتا
شیطان کے انسان کو گمراہ کرنے کے سب سے زیادہ موثر تین طریقے ہیں ایک یہ کہ وہ انسان کو شرک کی نئی سے نئی راہیں بڑے خوبصورت انداز میں پیش کرتا ہے
دوسرے اسے عقیدہ آخرت کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کردیتا ہے یا عقیدہ آخرت میں ایسے جزوی عقائد شامل کردیتا ہے کہ عقیدہ آخرت کا اصل مقصد ہی فوت ہوجائے اور عقیدہ آخرت کا صحیح مفہوم ہی وہ چیز ہے جو انسان کو سیدھی راہ پر قائم رکھ سکتا ہے
عقیدہ آخرت کے سوا کوئی دوسری چیز ایسی نہیں ہے جو اس دنیا میں انسان کو راہ راست پر قائم رکھنے کی ضامن ہو سکتی ہو اگر کوئی شخص یہ نہ مانتا ہو کہ اسے مر کر دوبارہ اٹھنا ہے اور اپنے خدا کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے
تو وہ لازماً گمراہ و بد راہ ہوگا کیونکہ اس کے اندر سرے سے وہ احساس ذمہ داری پیدا ہی نہ ہو سکے گا جو آدمی کو راہ راست پر ثابت قدم رکھتا ہے
اسی لیے شیطان کا سب سے بڑا حربہ جس سے وہ آدمی کو اپنے پھندے میں پھانستا ہے یہ ہے کہ وہ اسے آخرت سے غافل کرتا ہے اس کے اس فریب سے جو شخص بچ نکلے وہ کبھی اس بات پر راضی نہ ہو گا کہ اپنی اصل دائمی زندگی کے مفاد کو دنیا کی اس عارضی زندگی کے مفاد پر قربان کر دے
بخلاف اس کے جو شخص شیطان کے دام میں آ کر آخرت کا منکر ہو جائے یا کم از کم اس کی طرف سے شک میں پڑ جائے اسے کوئی چیز اس بات پر آمادہ نہیں کر سکتی کہ جو نقد سودا اس دنیا میں ہو رہا ہے اس سے صرف اس لیے ہاتھ اٹھا لے کہ اس سے کسی بعد کی زندگی میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے
دنیا میں جو شخص بھی گمراہ ہوا ہے اسی انکار آخرت یا شک فی الآخرۃ کی وجہ سے ہوا ہے اور جس نے بھی راست روی اختیار کی ہے اس کے صحیح طرز عمل کی بنیاد ایمان بالآخرۃ ہی پر قائم ہوئی ہے
اور جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر پختہ یقین رکھتے ہیں وہ اس کے چکمے میں نہیں آتے اور کبھی آبھی جائیں تو انہیں جلد ہی اس بات کا احساس ہوجاتا ہے اور فوراً پھر اللہ کی طرف پلٹ آتے ہیں
اس کا تیسرا وار اس کے لباس پر ہوتا ہے اور وہ لوگوں کو عریانی، بےحیائی اور فحاشی کی راہیں خوبصورت انداز میں دیکھاتا رہتا ہے
یعنی اللہ یہ بات بھی خوب جانتا ہے کہ اس نے ابلیس کو کس حد تک لوگوں کو گمراہ کرنے کا اختیار دے رکھا ہے اور وہ یہ خوب جانتا ہے کہ ابلیس صرف ان لوگوں کو ہی گمراہ کرسکتا ہے جو پہلے سے شیطان کے اشارے کے منتظر بیٹھے ہوتے ہیں
یعنی شیطان کو اللہ نے کوئی ایسی طاقت نہیں دی ہے کہ وہ انسانوں پر زبردستی مسلط ہو کر ان کو نافرمانی پر مجبور کردے
البتہ اللہ نے اسے صرف بہکانے کی صلاحیت دی ہے جس سے دل میں گناہ کی خواہش ضرور پیدا ہوجاتی ہے
مگر کوئی شخص گناہ اور نافرمانی پر مجبور نہیں ہوتا اور اگر کوئی شخص عقل اور شریعت کے مطالبے پر ڈٹ جائے تو شیطان کچھ بھی نہیں کرسکتا اور یہ صلاحیت بھی اس کو صرف اس لئے دی گئی ہے کہ اس کے ذریعے انسانوں کی آزمائش بھی مقصود تھی کہ کون ہے جو آخرت کی زندگی کو پیش نظر رکھ کر شیطان کی بات رد کردیتا ہے اور کون اسے مان لیتا ہے
اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے ہر قسم کے وار سے مخفوظ فرمائیں آمین
جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ
7 months ago | [YT] | 283