ہم پانچ بہن بھائی ہیں — دو بھائی اور تین بہنیں۔ ان سب میں میں سب سے بڑا ہوں، اور فاطمہ ہم سب میں سب سے چھوٹی۔ عمر کا فرق کچھ ایسا تھا کہ وہ میرے لیے بہن کم، بیٹی زیادہ تھی۔ بچپن سے لے کر اب تک، اس کی ہر ضرورت، ہر خواہش، ہر فرمائش میرے ساتھ جُڑی رہی۔ جب بھی کوئی کام ہوتا تو وہ ابو کو نہیں، مجھے کہتی تھی — “بھائی، میری فیس پے کر دیں”، “بھائی، میں نے آن لائن یہ چیز منگوائی ہے، اس کی پیمنٹ کردیں”، یا “بھائی، مجھے یہ کھانا ہے، یہ منگوا دیں”۔ رات ہو یا دن، اس کی ہر بات میرے لیے اہم ہوتی تھی، اور میں دل سے پوری کرتا تھا۔
ہمارے والد صاحب نے اپنی محدود آمدن کے باوجود ہمیشہ کوشش کی کہ ہمیں ہر وہ سہولت ملے جس سے ہماری زندگی آسان ہو۔ انہوں نے ہماری پرورش بڑے صبر، محنت اور محبت سے کی۔ پھر وقت کے ساتھ میں انگلینڈ چلا گیا، حالات بہتر ہوئے، اور فاطمہ کا بچپن ہم سب سے زیادہ آسان، بہتر اور خوشحال گزرا۔ وہ لاڈلی بھی تھی، ذہین بھی، اور دعاؤں کا مرکز بھی۔ اس کی ہر فرمائش صرف فرمائش نہیں ہوتی تھی — وہ میری خوشی بن چکی تھی۔
جب اس کی شادی کا وقت آیا، تو دل میں بس یہی خواہش تھی کہ جو کچھ فاطمہ مانگے، اُس سے بڑھ کر دوں۔ ہر چیز میں بہتری، خوبصورتی، اور اُس کی خوشی کو ترجیح دی۔ لباس، زیور، دعوت، جہیز — ہر پہلو میں چاہا کہ وہ اپنی زندگی کا سب سے حسین دن دیکھے، اور الحمدللہ اللہ نے سب آسان کر دیا۔
فاطمہ کی ایک خاص خواہش یہ بھی تھی کہ اُس کا نکاح مولانا طارق جمیل صاحب پڑھائیں۔ جب رشتہ طے ہوا تو اس نے بڑے محبت بھرے انداز میں اس خواہش کا اظہار کیا، اور میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ یہ خواہش بھی پوری ہونی چاہیے۔ میں نے مولانا صاحب سے خود درخواست کی، اور الحمدللہ، وہ خصوصی طور پر فیصل آباد سے لاہور تشریف لائے، اور نہ صرف نکاح پڑھایا بلکہ وہاں موجود سب لوگوں کے دلوں کو چھو لینے والا بیان بھی فرمایا۔ میں نے کوشش کی کہ فاطمہ کی ہر بات، ہر خواہش، جس طرح وہ چاہتی تھی — بالکل ویسا ہی ہو۔
بیٹیوں اور بہنوں کو رخصت کرنا شاید دنیا کے سب سے مشکل کاموں میں سے ایک ہے۔ آپ ایک عمر اُنہیں اپنی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھاتے ہیں، ان کے ہر درد، ہر خوشی میں شریک ہوتے ہیں، اور پھر ایک دن… اُنہیں دعاؤں، آنسوؤں اور دل کی ٹوٹتی ہوئی خاموشی کے ساتھ رخصت کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک لمحہ صرف رسم نہیں ہوتا، یہ دل کا ایک حصہ جدا ہونے کا احساس ہوتا ہے۔
رخصتی کے بعد دل بہت خالی سا محسوس ہوتا ہے۔ ابھی کل رات اچانک کہہ بیٹھا: “فاطمہ، ذرا یہ پکڑا دینا”، پھر لمحے بھر کو رُک گیا… یاد آیا کہ وہ اب اپنے گھر کی ہو گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: “جس نے دو بیٹیوں یا دو بہنوں کی پرورش کی، ان کی اچھی تربیت کی، اور پھر ان کی شادی کر دی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔” (ترمذی شریف)
بس اللہ سے دعا ہے کہ میری فاطمہ جہاں بھی رہے، خوش رہے، آباد رہے، عزت اور سکون سے زندگی گزارے۔ وہ ہماری سب سے چھوٹی ہے، لیکن دل کے سب سے قریب ہے۔ اور ہمیشہ دل کے درمیان ہی رہے گی۔
Hafiz Ahmed
ہم پانچ بہن بھائی ہیں — دو بھائی اور تین بہنیں۔ ان سب میں میں سب سے بڑا ہوں، اور فاطمہ ہم سب میں سب سے چھوٹی۔ عمر کا فرق کچھ ایسا تھا کہ وہ میرے لیے بہن کم، بیٹی زیادہ تھی۔ بچپن سے لے کر اب تک، اس کی ہر ضرورت، ہر خواہش، ہر فرمائش میرے ساتھ جُڑی رہی۔ جب بھی کوئی کام ہوتا تو وہ ابو کو نہیں، مجھے کہتی تھی — “بھائی، میری فیس پے کر دیں”، “بھائی، میں نے آن لائن یہ چیز منگوائی ہے، اس کی پیمنٹ کردیں”، یا “بھائی، مجھے یہ کھانا ہے، یہ منگوا دیں”۔ رات ہو یا دن، اس کی ہر بات میرے لیے اہم ہوتی تھی، اور میں دل سے پوری کرتا تھا۔
ہمارے والد صاحب نے اپنی محدود آمدن کے باوجود ہمیشہ کوشش کی کہ ہمیں ہر وہ سہولت ملے جس سے ہماری زندگی آسان ہو۔ انہوں نے ہماری پرورش بڑے صبر، محنت اور محبت سے کی۔ پھر وقت کے ساتھ میں انگلینڈ چلا گیا، حالات بہتر ہوئے، اور فاطمہ کا بچپن ہم سب سے زیادہ آسان، بہتر اور خوشحال گزرا۔ وہ لاڈلی بھی تھی، ذہین بھی، اور دعاؤں کا مرکز بھی۔ اس کی ہر فرمائش صرف فرمائش نہیں ہوتی تھی — وہ میری خوشی بن چکی تھی۔
جب اس کی شادی کا وقت آیا، تو دل میں بس یہی خواہش تھی کہ جو کچھ فاطمہ مانگے، اُس سے بڑھ کر دوں۔ ہر چیز میں بہتری، خوبصورتی، اور اُس کی خوشی کو ترجیح دی۔ لباس، زیور، دعوت، جہیز — ہر پہلو میں چاہا کہ وہ اپنی زندگی کا سب سے حسین دن دیکھے، اور الحمدللہ اللہ نے سب آسان کر دیا۔
فاطمہ کی ایک خاص خواہش یہ بھی تھی کہ اُس کا نکاح مولانا طارق جمیل صاحب پڑھائیں۔ جب رشتہ طے ہوا تو اس نے بڑے محبت بھرے انداز میں اس خواہش کا اظہار کیا، اور میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ یہ خواہش بھی پوری ہونی چاہیے۔ میں نے مولانا صاحب سے خود درخواست کی، اور الحمدللہ، وہ خصوصی طور پر فیصل آباد سے لاہور تشریف لائے، اور نہ صرف نکاح پڑھایا بلکہ وہاں موجود سب لوگوں کے دلوں کو چھو لینے والا بیان بھی فرمایا۔ میں نے کوشش کی کہ فاطمہ کی ہر بات، ہر خواہش، جس طرح وہ چاہتی تھی — بالکل ویسا ہی ہو۔
بیٹیوں اور بہنوں کو رخصت کرنا شاید دنیا کے سب سے مشکل کاموں میں سے ایک ہے۔ آپ ایک عمر اُنہیں اپنی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھاتے ہیں، ان کے ہر درد، ہر خوشی میں شریک ہوتے ہیں، اور پھر ایک دن… اُنہیں دعاؤں، آنسوؤں اور دل کی ٹوٹتی ہوئی خاموشی کے ساتھ رخصت کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک لمحہ صرف رسم نہیں ہوتا، یہ دل کا ایک حصہ جدا ہونے کا احساس ہوتا ہے۔
رخصتی کے بعد دل بہت خالی سا محسوس ہوتا ہے۔ ابھی کل رات اچانک کہہ بیٹھا: “فاطمہ، ذرا یہ پکڑا دینا”، پھر لمحے بھر کو رُک گیا… یاد آیا کہ وہ اب اپنے گھر کی ہو گئی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
“جس نے دو بیٹیوں یا دو بہنوں کی پرورش کی، ان کی اچھی تربیت کی، اور پھر ان کی شادی کر دی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔”
(ترمذی شریف)
بس اللہ سے دعا ہے کہ میری فاطمہ جہاں بھی رہے، خوش رہے، آباد رہے، عزت اور سکون سے زندگی گزارے۔ وہ ہماری سب سے چھوٹی ہے، لیکن دل کے سب سے قریب ہے۔ اور ہمیشہ دل کے درمیان ہی رہے گی۔
2 weeks ago | [YT] | 5,760