کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل قرآن سن کر پگھل جائیں
( سورة الحديد 16 )
یہ ایمان والوں سے سوال ہے
کیا مومنوں کے لئے اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ذکر اللہ وعظ نصیحت آیات قرآنی اور احادیث نبوی سن کر ان کے دل موم ہو جائیں ؟
سنیں اور مانیں احکام بجا لائیں ممنوعات سے پرہیز کریں
ابن مسعود رضي الله عنه فرماتے ہیں ہمارے اسلام لانے کے چار سال بعد یہ آیت نازل ہوئی اس آیت میں اللہ سبحانہ نے ہم سے شکایت کی ہم سب بہت روئے اور پھر ہم اپنے گھروں سے نکلتے تو ایک دوسرے کو عتاب کرتے اور کہتے کیا تم نے اللہ سبحانہ کا یہ فرمان نہیں سنا
اس آیت میں بالعموم مسلمانوں کو اور بالخصوص منافقوں کو یہ تنبیہ کی جارہی ہے کہ اللہ کی یاد سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہوجاتے ہیں اور ان میں فسق و فجور داخل ہونے لگتے ہیں
لہذا تم پر لازم ہے کہ ہر دم اللہ کو یاد رکھو اسی سے تم میں تقویٰ پیدا ہوگا اور تمہارے دل نرم رہ سکتے ہیں
اس سے پچھلی آیت میں اللہ نے قیامت کے دن مومن مردوں اور عورتوں اور منافق مردوں اور عورتوں کے حال کا ذکر فرمایا ہے
حق تو یہ تھا کہ جسے سن کر تم لوگ لرز اٹھتے اور خوف زدہ ہو کر عاجزی سے اپنے ربّ کے سامنے جھک جاتے لیکن اس کے باوجود تم نے کما حقہ اثر قبول نہ کیا اور ایمان والوں کو اللہ نے متنبہ فرمایا کہ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی نصیحت کی وجہ سے اور اس کی طرف سے نازل ہونے والے حق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجز ہو کر جھک جائیں ؟
ایمان والوں سے مراد وہ تمام ایمان والے ہیں جنہیں اس سے پہلے ایمان لانے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور لڑنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں سستی اور کوتاہی پر عتاب کیا گیا ہے
مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں اتنا عتاب سن کر اور قیامت کے دن منافقین کا انجام بد سن کر بھی کیا ایمان والوں کے لیے اللہ کے سامنے جھکنے اور اس کے احکام پر تن دہی سے عمل کرنے کا وقت نہیں آیا ؟
جب کہ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ اللہ کی آیات سن کر دل نرم ہوجائے اور اللہ کو یاد کرتے ہوئے فوراً نصیحت کا اثر قبول کرے کیونکہ ایمان والوں کی یہی شان ہوتی ہے
جیسا کہ سورة الأنفال میں فرمایا
اصل مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب انہیں اس کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے ربّ ہی پر توکل کرتے ہیں
( سورة الأنفال 2 )
اور پھر سورة الزمر میں فرمایا
اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے جس کے مضامین بار بار دہرائے گئے ہیں جب اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں پھر ان کے جسم اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں یہی اللہ کی وہ ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جس کو وہ گمراہی میں چھوڑ دے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے
( سورة الزمر 23 )
اور پھر ارشاد فرمایا کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہیں اس سے پہلے کتاب یعنی تورات اور اس کے بعد انجیل دی گئی کہ شروع میں ان کا یہ حال تھا کہ اللہ کی آیات سن کر ان کے دل نرم ہوجاتے اور وہ ڈر جاتے تھے اور اپنی خواہشات کے پیچھے چلنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے تھے
پھر جیسے جیسے انبیاء کے زمانے سے دوری ہوتی گئی وہ خواہشات اور دنیا کی لذتوں کے پیچھے پڑتے گئے اور اللہ کے احکام جاننے کے باوجود ان پر عمل چھوڑ بیٹھے جس سے ان کے دل سخت ہوگئے اور انہوں نے دانستہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرلیا شرک ، زنا ، قتل ناحق ، چوری ، سود خوری اور دوسرے گناہ عام ہوگئے
اللہ کی آیات سن کر دل نرم ہونے اور ان کے سامنے جھک جانے کے بجائے انہوں نے ان میں تحریف شروع کردی ، جس کے نتیجے میں وہ راہ راست سے بہت دور چلے گئے اور باہمی ضد اور عناد میں بہت سے فرقوں میں بٹ گئے
اب بھی ان کا یہی حال ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ فاسق ہیں یعنی اللہ کا حکم سن کر بھی اس پر عمل نہ کرنے والے ہیں
اس لیے تم بھی یہود و نصاریٰ کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے کتاب اللہ کو بدل دیا تھوڑے تھوڑے مول پر اسے فروخت کر دیا
پس کتاب اللہ کو پس پشت ڈال کر رائے و قیاس کے پیچھے پڑھ گئے اور از خود ایجاد کردہ اقوال کو ماننے لگ گئے اور اللہ کے دین میں دوسروں کی تقلید کرنے لگے اپنے علماء اور درویشوں کی بےسند باتیں دین میں داخل کر لی
ان بداعمالیوں کی سزا میں اللہ نے ان کے دل سخت کر دیئے کتنی ہی اللہ کی باتیں کیوں نہ سناؤ ان کے دل نرم نہیں ہوتے کوئی وعظ و نصیحت ان پر اثر نہیں کرتا کوئی وعدہ وعید ان کے دل اللہ کی طرف موڑ نہیں سکتا
بلکہ ان میں کے اکثر و بیشتر فاسق اور کھلے بدکار بن گئے دل کے کھوٹے اور اعمال کے بھی کچے ہیں
جیسے کہ سورة المائدة میں فرمایا
ان کی بدعہدی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت نازل کی اور ان کے دل سخت کر دیئے یہ کلمات کو اپنی جگہ سے تحریف کر دیتے ہیں اور ہماری نصیحت کو بھلا دیتے ہیں
( سورة المائدة 13 )
یعنی ان کے دل فاسد ہو گئے اللہ کی باتیں بدلنے لگ گئے نیکیاں چھوڑ دیں برائیوں میں منہمک ہوگئے
اسی لئے اب ربّ العالمین اس امت کو متنبہ کر رہا ہے ہے کہ جان رکھو کہ اللہ مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ سخت دلوں کے بعد بھی اللہ انہیں نرم کرنے پر قادر ہے
گمراہیوں کی تہہ میں اتر جانے کے بعد بھی اللہ راہ راست پر لاتا ہے جس طرح بارش خشک زمین کو تر کر دیتی ہے اسی طرح کتاب اللہ مردہ دلوں کو زندہ کر دیتی ہے
دلوں میں جتنا بھی اندھیرا چھا گیا ہو کتاب اللہ کی روشنی اسے منور کر دیتی ہے اور اللہ کی وحی ہی اس قفل کی کنجی ہے
اللہ تعالیٰ ہمیں دلوں کی سختی سے محفوظ فرمائیں آمین
Nafees Quran
کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل قرآن سن کر پگھل جائیں
( سورة الحديد 16 )
یہ ایمان والوں سے سوال ہے
کیا مومنوں کے لئے اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ذکر اللہ وعظ نصیحت آیات قرآنی اور احادیث نبوی سن کر ان کے دل موم ہو جائیں ؟
سنیں اور مانیں احکام بجا لائیں ممنوعات سے پرہیز کریں
ابن مسعود رضي الله عنه فرماتے ہیں
ہمارے اسلام لانے کے چار سال بعد یہ آیت نازل ہوئی اس آیت میں اللہ سبحانہ نے ہم سے شکایت کی ہم سب بہت روئے اور پھر ہم اپنے گھروں سے نکلتے تو ایک دوسرے کو عتاب کرتے اور کہتے
کیا تم نے اللہ سبحانہ کا یہ فرمان نہیں سنا
اس آیت میں بالعموم مسلمانوں کو اور بالخصوص منافقوں کو یہ تنبیہ کی جارہی ہے کہ اللہ کی یاد سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہوجاتے ہیں اور ان میں فسق و فجور داخل ہونے لگتے ہیں
لہذا تم پر لازم ہے کہ ہر دم اللہ کو یاد رکھو اسی سے تم میں تقویٰ پیدا ہوگا اور تمہارے دل نرم رہ سکتے ہیں
اس سے پچھلی آیت میں اللہ نے قیامت کے دن مومن مردوں اور عورتوں اور منافق مردوں اور عورتوں کے حال کا ذکر فرمایا ہے
حق تو یہ تھا کہ جسے سن کر تم لوگ لرز اٹھتے اور خوف زدہ ہو کر عاجزی سے اپنے ربّ کے سامنے جھک جاتے لیکن اس کے باوجود تم نے کما حقہ اثر قبول نہ کیا اور ایمان والوں کو اللہ نے متنبہ فرمایا کہ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی نصیحت کی وجہ سے اور اس کی طرف سے نازل ہونے والے حق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجز ہو کر جھک جائیں ؟
ایمان والوں سے مراد وہ تمام ایمان والے ہیں جنہیں اس سے پہلے ایمان لانے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور لڑنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں سستی اور کوتاہی پر عتاب کیا گیا ہے
مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں اتنا عتاب سن کر اور قیامت کے دن منافقین کا انجام بد سن کر بھی کیا ایمان والوں کے لیے اللہ کے سامنے جھکنے اور اس کے احکام پر تن دہی سے عمل کرنے کا وقت نہیں آیا ؟
جب کہ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ اللہ کی آیات سن کر دل نرم ہوجائے اور اللہ کو یاد کرتے ہوئے فوراً نصیحت کا اثر قبول کرے کیونکہ ایمان والوں کی یہی شان ہوتی ہے
جیسا کہ سورة الأنفال میں فرمایا
اصل مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب انہیں اس کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے ربّ ہی پر توکل کرتے ہیں
( سورة الأنفال 2 )
اور پھر سورة الزمر میں فرمایا
اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے جس کے مضامین بار بار دہرائے گئے ہیں جب اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں پھر ان کے جسم اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں یہی اللہ کی وہ ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جس کو وہ گمراہی میں چھوڑ دے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے
( سورة الزمر 23 )
اور پھر ارشاد فرمایا کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہیں اس سے پہلے کتاب یعنی تورات اور اس کے بعد انجیل دی گئی کہ شروع میں ان کا یہ حال تھا کہ اللہ کی آیات سن کر ان کے دل نرم ہوجاتے اور وہ ڈر جاتے تھے اور اپنی خواہشات کے پیچھے چلنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے تھے
پھر جیسے جیسے انبیاء کے زمانے سے دوری ہوتی گئی وہ خواہشات اور دنیا کی لذتوں کے پیچھے پڑتے گئے اور اللہ کے احکام جاننے کے باوجود ان پر عمل چھوڑ بیٹھے جس سے ان کے دل سخت ہوگئے اور انہوں نے دانستہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرلیا شرک ، زنا ، قتل ناحق ، چوری ، سود خوری اور دوسرے گناہ عام ہوگئے
اللہ کی آیات سن کر دل نرم ہونے اور ان کے سامنے جھک جانے کے بجائے انہوں نے ان میں تحریف شروع کردی ، جس کے نتیجے میں وہ راہ راست سے بہت دور چلے گئے اور باہمی ضد اور عناد میں بہت سے فرقوں میں بٹ گئے
اب بھی ان کا یہی حال ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ فاسق ہیں یعنی اللہ کا حکم سن کر بھی اس پر عمل نہ کرنے والے ہیں
اس لیے تم بھی یہود و نصاریٰ کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے کتاب اللہ کو بدل دیا تھوڑے تھوڑے مول پر اسے فروخت کر دیا
پس کتاب اللہ کو پس پشت ڈال کر رائے و قیاس کے پیچھے پڑھ گئے اور از خود ایجاد کردہ اقوال کو ماننے لگ گئے اور اللہ کے دین میں دوسروں کی تقلید کرنے لگے اپنے علماء اور درویشوں کی بےسند باتیں دین میں داخل کر لی
ان بداعمالیوں کی سزا میں اللہ نے ان کے دل سخت کر دیئے کتنی ہی اللہ کی باتیں کیوں نہ سناؤ ان کے دل نرم نہیں ہوتے کوئی وعظ و نصیحت ان پر اثر نہیں کرتا کوئی وعدہ وعید ان کے دل اللہ کی طرف موڑ نہیں سکتا
بلکہ ان میں کے اکثر و بیشتر فاسق اور کھلے بدکار بن گئے دل کے کھوٹے اور اعمال کے بھی کچے ہیں
جیسے کہ سورة المائدة میں فرمایا
ان کی بدعہدی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت نازل کی اور ان کے دل سخت کر دیئے یہ کلمات کو اپنی جگہ سے تحریف کر دیتے ہیں اور ہماری نصیحت کو بھلا دیتے ہیں
( سورة المائدة 13 )
یعنی ان کے دل فاسد ہو گئے اللہ کی باتیں بدلنے لگ گئے نیکیاں چھوڑ دیں برائیوں میں منہمک ہوگئے
اسی لئے اب ربّ العالمین اس امت کو متنبہ کر رہا ہے ہے کہ جان رکھو کہ اللہ مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ سخت دلوں کے بعد بھی اللہ انہیں نرم کرنے پر قادر ہے
گمراہیوں کی تہہ میں اتر جانے کے بعد بھی اللہ راہ راست پر لاتا ہے جس طرح بارش خشک زمین کو تر کر دیتی ہے اسی طرح کتاب اللہ مردہ دلوں کو زندہ کر دیتی ہے
دلوں میں جتنا بھی اندھیرا چھا گیا ہو کتاب اللہ کی روشنی اسے منور کر دیتی ہے اور اللہ کی وحی ہی اس قفل کی کنجی ہے
اللہ تعالیٰ ہمیں دلوں کی سختی سے محفوظ فرمائیں آمین
جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ
7 months ago | [YT] | 651