Razia Mehsood

نوٹ: صفی سرحدی، میری یہ وصیت ہے کہ میرے مرنے کے بعد میری یہ تحریر میری قبر پر کندہ کرکے میری اخری خواہش سمجھ کر پوری کریں۔
شکریہ
"شعور"
میری عادت رہی ہے کہ میں جب خالی پیٹ ہوتا ہوں تو ادب کی بھاری کتابیں کھول کر بیٹھ جاتا ہوں۔ میری انکھوں کے سامنے الفاظ ناچنے لگتے ہیں۔ کیونکہ بھوک مجھ پر حاوی ہوتی ہے۔ مگر کچھ جملے ایسے بھی ہوتے ہیں جو میرے بھوک سے زیادہ طاقتور ثابت ہوجاتے ہیں اور مجھے اپنی طرف مجھے متوجہ کرلیتے ہیں۔
آج بھی بھوک سے بےحال ہوں مگر میرے ہاتھ میں موجود کتاب کھول کر میں پھر بے حال سا ہوگیا ہوں۔ اس پیراگراف نے مجھے گویا جکڑ کر رکھ دیا یے۔
"انسان قدرت کی حسین تخلیق ہے، قدرت نے اپنے بنائے گئے سیارے کی خوبصورتی کیلئے زندوں کو تخلیق کیا۔ زندہ جانور بنائے ان کیلئے سرسبز چراگاہیں تخلیق کیں۔ پھر ان سے تھوڑا سا بہتر جاندار بنایا جس کو شعور دیکر ان سب جانداروں سے افضل بنایا گیا تاکہ وہ اس خوبصورت نظام کی تکمیل کرسکے۔
قدرت نے انسان بنا کر گویا اس سیارے کی خوبصورتی کو مزید چار چاند لگا دیئے۔ اس خوبصورتی کی تسلسُل کیلئے ہر جاندار کا خوبصورت مادہ بھی بنایا گیا تاکہ زندگی کا احساس بڑھتا رہے اور اس کی نسل آگے بڑھتی رہے"۔
یہاں تک پہنچ کر مجھے اپنی خوبصورت انکھوں والی مادہ یاد آگئی۔ جس نے بڑے چاو اور محبت سے میری نسل بڑھائی تھی۔ ہم دونوں روز سرسبز گھاس پر بیٹھ کر ایک دوسرے پر قربان ہوجایا کرتے تھے۔ بالآخر جب ہمارے پاس الفاظ ختم ہوجاتے تھے تو ہم ایک دوسرے میں باہم پیوست ہوکر الفاظ سے بہتر رابطے استوار کرلیا کرتے تھے۔
میں اپنے سامنے دیوار میں اپنی مادہ کو یاد کرکے آبدیدہ ہوا جارہا تھا۔ آنسووں کیوجہ سے میری انکھیں پھر دھندلا گئیں۔ کتاب کے صفحے پر نظریں گاڑ کر دوبارہ میں اس پیراگراف کو ڈھونڈنے لگ گیا۔۔۔
"مادہ پودے کا بھی ہوتا ہے، چرند پرند کا بھی ہوتا ہے۔ انسان کیلئے بھی مادہ تخلیق کی گئی۔ مگر انسان کی مادہ باقی ماداوں سے اس لئے بھی الگ ہے کہ قدرت نے اپنے سارے جمالیات سارے احساسات اس مادہ میں انڈیل دیئے ہیں۔ یہی مرد اپنی مادہ کیلئے سب کچھ تخلیق کرنے کی سعی کرتا ہے۔ تاکہ اس کی مادہ خوش رہے اس کو پیار دیتی رہے اور اس کی نسل کو آگے بڑھاتی رہے۔ تاکہ اس کی دنیا مزید خوبصورت سے خوبصورت ہو"۔
میں نے اپنے سامنے لیٹے تین بچوں کے پرسکون چہروں کو تکنا شروع کیا جو میری خوبصورت مادہ کے تین خوبصورت تحفے تھے۔ میرے گھر کے آنگن میں تین پھول کھلا کر میری مادہ نے مجھے دنیا کا خوش قسمت ترین مرد بنا دیا تھا۔ میں کام سے تھکا ہارا آتا تھا تو میرے بچوں کی خوش کن قلقاریاں میری ساری تھکن اتار دیتی تھی۔ میں ان تینوں کو گود میں سمیٹ کر اپنی انکھیں بند کرکے خود کو خدا کا ہم پلہ سمجھنے کی خوش فہمی پال لیتا تھا۔ اور میری مادہ پیچھے سے مجھ سے بغلگیر ہوکر مجھے دوبارہ خوش فہم بنا دیتی تھی۔
میرے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔
میں نے اپنے خوبصورت خیال زبردستی جھٹک دیئے اور مجھے یاد آیا کہ مجھے اپنی کتاب کا بقیہ پیراگراف پڑھنا ہے۔ جلدی سے دوبارہ وہی صحفہ کھولا۔ اس بار انکھوں میں آنسووں نہیں تھے سو پیراگراف ڈھونڈنے میں کوئی اتنی خاص مشکل بھی پیش نہیں آئی۔
"قدرت نے اس سیارے کو بے حساب حسن دیا۔ اتنا حسن کہ قریب ترین سیاروں میں سے یا کہکشاوں میں اس سے زیادہ رنگین اور خوبصورت سیارہ کوئی اور نہیں ہے۔ اس خوبصورت گہری سبز مائل سیارے پر ہم باشعور انسانوں نے ایک اور رنگ کا اضافہ کردیا ہے سرخ آگ کے شعلے جیسا رنگ، جس میں قدرت کے حسین رنگ دب گئے ہیں۔ اس رنگت کیوجہ سے اس سیارے پر روز ہزاروں بچے مررہے ہیں، خوبصورت مادائیں جن کی خوبصورت انکھوں کی مثال دی جاتیں ہیں ان کی انکھوں میں سیاہ اداسیوں نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔ ان ماداوں کے خوبصورت مرد مر رہے ہیں۔ ان سرخ شعلوں کے بعد بھوک کی بدصورت رنگت نے اس خوبصورت سیارے کی خوبصورتی کو ختم کردیا ہے۔ آج شاید قدرت بھی اپنے فیصلے پر شرمندہ ہو کہ اس سیارے کو باشعور تخلیق سے دور رکھ پاتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ کیونکہ شیطان نے بھی تو قدرت سے بغاوت اس لئے کی تھی کہ یہی انسان تباہی لائیگا۔ اور آج یہی سچ ثابت ہورہا ہے"۔
میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی کتاب سے نظریں اٹھائیں اور سامنے دیوار کو تکنے لگا۔ جب میری نظریں تھک گئیں۔ تو مجھے اس مہیب سناٹے سے ڈر لگنے لگا۔ دور کہیں ایک گہری آواز نے زمین ہلا دی اور میرے کمرے کی ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے پورا کمرہ خون جیسی سرخ روشنی میں نہا گیا۔ میں نے اپنے تین بچوں کے خون آلود وجود اور ساتھ میں پڑی اپنی ساکت مادہ کو دیکھا جو اس خوبصورت سیارے پر فضول وجود بنے ہوئے تھے۔
میں نے کتاب بند کرکے ایک طرف رکھ دی اور روٹی کے بارے میں سوچنے لگ گیا۔
عارف خٹک

2 years ago | [YT] | 12