Welcome to Mehv e Raqs – a spiritual sanctuary of Sufi Qawwalis, devotional songs, heart-touching Manqabat, and soul-soothing Naats. This channel is dedicated to the divine rhythm of Sufi music, celebrating the love of Hazrat Ali, Imam Hussain, Ghaus-e-Azam, and the saints of Islam. Join us on this mystical journey through Ishq-e-Haqiqi, Sufi poetry, and sacred Qawwali gatherings that ignite the soul.



SufiMusic MehvERaqs Qawwali Manqabat NaatSharif SufiQawwali SufiDevotion IshqEHaqiqi IslamicMusic AhlulBaytLove



Mehv e Raqs

بعض حقیقتیں لفظوں کی قید میں نہیں آتیں، عقل کی گرفت میں نہیں سماتیں۔
وہ نہ دلیل سے کھلتی ہیں… نہ منطق سے سمجھ آتی ہیں۔
وہ صرف حال سے اترتی ہیں، فیض سے برستی ہیں، دل پر وارد ہوتی ہیں۔

جیسے کوئی لطیف بادِ نسیم ہو…
جو جسم کو نہیں، روح کو چھو کر گزرتی ہے۔
بالکل اسی طرح کچھ راز ایسے ہیں جو دماغ پر نہیں،
سینے کے اندر کسی پوشیدہ مقام پر کھلتے ہیں۔

سالک جتنا سمجھنے کی کوشش کرتا ہے،
راز اُتنا ہی دور ہوتا جاتا ہے—
لیکن جب وہ سمجھنے سے دستبردار ہو کر
صرف محسوس کرنا شروع کرتا ہے،
تب حقیقت خود چل کر اس کے دل تک آتی ہے۔

یہ وہ مقام ہے جہاں
علم خاموش ہو جاتا ہے اور شعور بول اٹھتا ہے۔
جہاں زبان گم ہو جاتی ہے اور دل باتیں کرنے لگتا ہے۔
جہاں سوال مٹ جاتے ہیں… اور صرف حال باقی رہ جاتا ہے۔

یہ وہ لمحہ ہے جب سالک جان لیتا ہے کہ
حقیقتیں الفاظ کی محتاج نہیں،
وہ تو دل کے آئینے پر الوہی روشنی کی طرح اترتی ہیں—
اور جس پر یہ روشنی اتر جائے
وہ دیکھنے لگتا ہے، سننے لگتا ہے،
اور یہاں تک کہ وہ وہی کچھ جاننے لگتا ہے
جو نہ لکھا جا سکتا ہے، نہ بیان کیا جا سکتا ہے۔

بعض حقیقتیں سمجھی نہیں جاتیں…
دل کی گہرائیوں میں “اتاری” جاتی ہیں۔
ان کا علم نہیں… ان کا ذوق ہوتا ہے۔
ان کی پہچان نہیں… ان کا حال ہوتا ہے۔
وہ صرف محسوس ہوتی ہیں—
اور جس کے دل میں یہ احساس جاگ جائے
وہی “اہلِ دل” ہے،
وہی “سالکِ راہِ حق” ہے،
وہی “مستیِ حق” کا پیاسا ہے۔

1 month ago | [YT] | 84

Mehv e Raqs

صوفیانہ مفہوم:

1. "تیرے رخِ زیبا" — جمالِ حق

یہاں "رخِ زیبا" سے مراد اللہ تعالیٰ کا جمال یا حقیقتِ مطلقہ کا ظہور ہے۔
صوفیا کے نزدیک خدا کی ذات "جمیل" ہے — یعنی سراپا حسن۔
یہ حسن کبھی کائنات کی صورت میں جھلکتا ہے، کبھی انسانِ کامل میں، اور کبھی دل کے آئینے میں۔
جو شخص اس جمال کا جلوہ دیکھ لیتا ہے، وہ پھر کسی اور چیز کی طرف نگاہ نہیں کرتا۔


---

2. "زاہد" — ظاہری عبادت گزار

"زاہد" اس شخص کو کہا گیا ہے جو عبادت و پرہیزگاری میں مشغول ہو، مگر اُس کا دھیان عشق کی گہرائی تک نہ پہنچا ہو۔
وہ عبادت کو رسم کے طور پر انجام دیتا ہے — تسبیح گننا، مصلیٰ بچھانا، رکوع و سجود میں رہنا —
مگر دل اُس عبادت کے راز تک نہیں پہنچتا۔
وہ "محبوب" کی تلاش میں نہیں، بلکہ "ثواب" کی طلب میں ہے۔


---

3. "پڑ جائے جو زاہد کی نظر" — جلوۂ حق کا لمحہ

شاعر کہتا ہے، اگر کبھی ایسا ہو جائے کہ زاہد کی آنکھ پر سے پردہ ہٹ جائے،
اور وہ حقیقت کے جلوے، خدا کے حسن، یا محبوبِ حقیقی کے چہرے کا دیدار کر لے —
تو وہ اُس لمحے سمجھ جائے گا کہ ساری عبادتیں، سب رسومات،
بس اُسی دیدار کی تیاری تھیں، اُس لمحے کا انتظار تھیں۔


---

4. "تسبیح پھینکے اک طرف اپنا مصلیٰ اک طرف" — فنا فی العشق

جب حقیقت کا دیدار نصیب ہوتا ہے، تو "میں" باقی نہیں رہتی۔
عبادت گزار، عبادت، اور معبود — سب ایک ہو جاتے ہیں۔
اس کیفیت میں انسان کو ظاہری چیزوں کی ضرورت نہیں رہتی،
کیونکہ وہ عبادت کے معنی تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔

یہی مقامِ فنا ہے،
جہاں بندہ، بندگی کے پردے سے گزر کر، محبوب کی حقیقت میں گم ہو جاتا ہے۔

The poet is saying — when one truly beholds the Divine Beauty (the Face of Truth), all outer rituals lose their value.
The zahid (the devout worshipper) who spent life counting beads and bowing in form, realizes that real worship is love itself.
In that moment, prayer mats and rosaries — symbols of ritual — fall away,
and only ishq (divine love) remains.
For the Sufi, the vision of the Beloved is the essence of all worship.


यह पंक्ति उस क्षण की बात करती है जब साधक को परमात्मा का साक्षात्कार हो जाता है।
जब “सुंदर मुख” — अर्थात् ईश्वर की दिव्य झलक — दिखाई देती है,
तब बाहरी पूजा, जप-माला और आसन सब तुच्छ लगने लगते हैं।
वह जान लेता है कि सच्ची उपासना प्रेम और एकत्व का अनुभव है,
न कि केवल कर्मकांड।
जैसे मीराबाई ने कहा — “मैं तो प्रेम दीवानी, मेरा दरशन ही पूजा।”

1 month ago | [YT] | 63

Mehv e Raqs

“میری سانسوں سے لپٹی ہیں...”
ایک ایسا کلام جو دل کی دھڑکن بن جائے۔ 💫
🎧 سنیں اور محسوس کریں ↓
https://youtu.be/qiR4Ytco2mw
#SufiSong #SpiritualMusic

2 months ago | [YT] | 100

Mehv e Raqs

یہ شعر صوفیانہ فلسفے کی گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے اور انسان کی حقیقت اور اس کے روحانی سفر پر روشنی ڈالتا ہے

پہلا مصرع:

"بہ آدمی نرسیدی خدا چہ می جوئی"
یہ مصرع انسان کی خود شناسی اور اپنی حقیقت کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ صوفیانہ تعلیمات میں یہ تصور عام ہے کہ انسان کو خدا تک رسائی حاصل کرنے کے لیے پہلے اپنی حقیقت اور اپنی "آدمیت" کو پہچاننا ہوگا۔
اگر انسان اپنی ذات کو نہیں پہچانتا اور اپنی صفات کو خدا کی صفات کے آئینے میں نہیں دیکھتا، تو خدا کی تلاش بے معنی ہو جاتی ہے۔ حدیثِ قدسی "من عرف نفسہ فقد عرف ربہ" (جس نے خود کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا) اسی فلسفے کو بیان کرتی ہے۔

دوسرا مصرع:

"ز خود گریختہ ئی آشنا چہ می جوئی"
یہ مصرع اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان اپنی اصل حقیقت سے فرار حاصل کرکے کسی اور سے آشنائی یا قربت تلاش کر رہا ہے، جو کہ ممکن نہیں۔ صوفیانہ نظریے کے مطابق، خدا انسان کے اندر موجود ہے اور اس تک پہنچنے کا راستہ انسان کی اپنی ذات کے اندر ہے۔ اگر انسان اپنی حقیقت اور اپنے دل کو سمجھنے سے بھاگ رہا ہے، تو وہ دوسروں کے ساتھ حقیقی تعلق یا قربت کیسے حاصل کر سکتا ہے؟

مجموعی تشریح:

یہ شعر اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان کو خدا کی قربت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنی ذات کی گہرائیوں میں جھانکنا ہوگا۔ اپنی اصل حقیقت اور "آدمیت" کو پہچانے بغیر خدا کو تلاش کرنا بے سود ہے۔ خدا کی تلاش کا پہلا قدم خود شناسی ہے، اور یہ سفر اندرونی ہوتا ہے، نہ کہ بیرونی۔
یہ شعر صوفیانہ راستے کے اس بنیادی اصول کو بیان کرتا ہے کہ انسان کو اپنی انا، خواہشات اور ظاہری دنیا سے اوپر اٹھ کر اپنی اصل حقیقت کو پہچاننا ہوگا تاکہ وہ خدا کے قریب ہو سکے۔

11 months ago | [YT] | 161

Mehv e Raqs

1- بے تجلّی زندگی رنجوری است
یہ مصرع اس بات کو واضح کرتا ہے کہ انسان کی زندگی کا اصل مقصد اللہ کی تجلی کا حصول ہے۔ صوفیہ کے نزدیک تجلی وہ روحانی روشنی یا انکشاف ہے جو اللہ کی قربت اور معرفت کے ذریعے انسان کے دل پر وارد ہوتی ہے۔

اگر یہ تجلی نہ ہو تو انسان کی زندگی خالی، بے مقصد اور غموں سے بھری رہتی ہے۔

یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان مادی دنیا میں الجھا ہوا ہو اور روحانی حقیقت سے دور ہو۔


2. عقل مہجوری و دیں مجبوری است
یہ مصرع بیان کرتا ہے کہ تجلی کے بغیر عقل ایک قید میں رہتی ہے، یعنی اللہ کی معرفت اور حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔

عقل مہجوری: صوفیہ کے نزدیک عقل محدود ہے اور اس کا حقیقی فائدہ تبھی ممکن ہے جب اسے تجلیٔ الٰہی کی روشنی نصیب ہو۔

دیں مجبوری: دین، جو انسان کے روحانی سفر کا راستہ ہے، تجلی کے بغیر محض ظاہری عبادات اور رسومات تک محدود ہو جاتا ہے۔ یہ "مجبوری" کی حالت ہے جہاں دین ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے، نہ کہ قلبی سکون کا ذریعہ۔



---

3. صوفیانہ تعلیمات کی روشنی میں تجلی کا حصول

تجلی کا مطلب انسان کے دل پر اللہ کی نورانی روشنی کا پڑنا ہے، جو اسے حقیقت کی گہرائی تک پہنچاتا ہے۔

مولانا رومیؒ فرماتے ہیں:
ہرکجا نورِ خدا تابندہ شد
زیں ہمہ اندیشہ ہا رہ بندہ شد
(جہاں اللہ کا نور چمکتا ہے، وہاں انسان کے تمام شکوک و شبہات ختم ہو جاتے ہیں۔)


4. تجلی کے بغیر زندگی کی کیفیت

رنجوری: صوفیہ کے نزدیک تجلی کے بغیر انسان ہمیشہ روحانی بے سکونی، مایوسی، اور اضطراب میں مبتلا رہتا ہے۔

مہجوری: عقل اللہ کی معرفت حاصل کرنے سے محروم رہتی ہے، اور حقیقت کے قریب ہونے کے بجائے مادی مسائل میں الجھ جاتی ہے۔

مجبوری: دین انسان کے لیے محض ایک رسمی عمل بن کر رہ جاتا ہے، جس میں روحانی گہرائی نہیں ہوتی۔



---

5. تجلی کی روشنی سے زندگی کی بہار

صوفیہ کا ماننا ہے کہ جب انسان اللہ کی تجلی کو اپنی زندگی میں جگہ دیتا ہے:

زندگی "رنجوری" سے "سروری" میں بدل جاتی ہے۔

عقل محدودیت سے نکل کر معرفت الٰہی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

دین ایک مجبوری کے بجائے دل کی خوشی اور روح کی غذا بن جاتا ہے۔


یہ شعر اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ انسان اپنی روحانی زندگی کو تجلیٔ الٰہی کے ذریعے روشنی بخشے۔ بغیر تجلی کے، زندگی خالی اور بے مقصد رہتی ہے، لیکن اللہ کی معرفت اور قربت حاصل ہو جائے تو یہی زندگی خوشیوں اور سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے۔

1 year ago | [YT] | 170

Mehv e Raqs

یہ شعر صوفیانہ نقطۂ نظر سے انسان کی حقیقت اور روحانی بصیرت کے موضوع کو بیان کرتا ہے۔ صوفی ازم میں انسان کے جسم کو ایک عارضی اور ظاہری قالب تصور کیا جاتا ہے، جبکہ اصل حقیقت انسان کی روح یا وہ بصیرت ہے جو حق اور حقیقت کو پہچان سکے۔ اس شعر کی صوفیانہ شرح کچھ اس طرح ہے:

1. "آدمی دید است باقی پوست است":

صوفیانہ تعلیمات کے مطابق، انسان کی اصل ذات اس کی روحانی بصیرت یا معرفت ہے، جسے "دید" کہا گیا ہے۔ جسمانی وجود یا ظاہری صورت (پوست) محض ایک پردہ یا عارضی لبادہ ہے۔ انسان کی اصلیت اس کی اندرونی روشنی یا معرفت کی صلاحیت میں پنہاں ہے۔

2. "دید آں باشد کہ دید دوست است":

صوفیانہ فلسفہ میں "دوست" سے مراد خدا یا محبوب حقیقی ہے۔ وہ بصیرت ہی حقیقی بصیرت ہے جو انسان کو خدا کی معرفت حاصل کرنے کے قابل بنائے۔ دید کا مطلب صرف ظاہری دیکھنا نہیں، بلکہ وہ قلبی اور روحانی نظر ہے جو اللہ کے جمال کو دیکھنے اور اس کی قربت حاصل کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔

مرکزی خیال:

یہ شعر انسان کو اپنی ظاہری زندگی سے آگے بڑھ کر اپنی روحانی حقیقت کو تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ صوفیوں کے نزدیک، عشقِ حقیقی کا مقصد اپنے محبوب (اللہ) کی پہچان اور قربت حاصل کرنا ہے۔ اس شعر میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ظاہری جسمانی حیات بے وقعت ہے اگر انسان خدا کی محبت اور معرفت سے خالی ہو۔ وہی بصیرت کامل ہے جو انسان کو خدا تک لے جائے۔

صوفی شعرا انسان کو اندرونی تزکیہ اور معرفتِ الٰہی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ یہ شعر اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ حقیقی انسان وہی ہے جو اپنی اندرونی آنکھ (بصیرت) کو کھول کر خدا کو پہچانے۔ جسمانی زندگی فانی ہے، لیکن عشقِ حقیقی اور دیدِ دوست ابدی ہے۔

1 year ago | [YT] | 180

Mehv e Raqs

اس شعر میں شاعر نے ایک گہری روحانی حقیقت بیان کی ہے کہ حقیقی محبوب یا "یار" (جو خدا کی علامت ہے) کو دل میں تلاش کرنا ضروری ہے۔ دل کی گہرائیوں میں اگر محبوب کا جلوہ نظر نہ آئے، تو بیرونی تلاش اور ظاہری رسومات بے سود ہیں۔ اس شرح کو درج ذیل نکات کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے:

1. دل کی اہمیت:

صوفیانہ تعلیمات میں دل کو خدا کا مسکن کہا جاتا ہے۔ صوفیا کے نزدیک دل وہ آئینہ ہے جس میں حقیقتِ مطلق کا جلوہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر دل کو پاکیزہ نہ کیا جائے اور اس میں یار کی تجلی محسوس نہ ہو، تو ظاہری عبادات یا دنیاوی کوششیں بے معنی ہیں۔


---

2. باطنی تلاش بمقابلہ ظاہری سفر:

شعر میں "آسمان تک جانا" ظاہری عبادات، دنیاوی جستجو یا روحانی مقامات کی طرف اشارہ ہے۔ شاعر یہ کہہ رہا ہے کہ اگر دل، جو حقیقت کا مرکز ہے، یار کی موجودگی سے خالی ہے، تو بیرونی راستے اور مقامات تک پہنچنا بے فائدہ ہے۔ صوفیانہ فلسفے میں اندرونی معرفت کو ظاہری اعمال پر فوقیت دی گئی ہے۔


---

3. خود شناسی اور خدا شناسی:

صوفیا کا قول ہے کہ "من عرف نفسه فقد عرف ربّه" (جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا)۔ یہ شعر اسی حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ دل کی گہرائی میں اپنے اندر موجود "یار" کو تلاش کرنا ضروری ہے۔ اگر یہ نہ ہو، تو باہر کی ہر کوشش بے کار ہے۔


---

4. ظاہر اور باطن کا تضاد:

شعر یہ بھی بتاتا ہے کہ حقیقی معرفت کا حصول ظاہری دنیاوی سفر یا رسومات سے نہیں بلکہ باطنی جستجو اور دل کی پاکیزگی سے ممکن ہے۔ آسمان تک جانا، جو کہ بلندی اور روحانیت کی علامت ہے، بھی بے معنی ہے اگر دل معرفت سے خالی ہو۔


---

5. فنا فی اللہ:

صوفیا کے نزدیک محبوب کی تلاش اور اس کا دیدار دل میں تبھی ممکن ہے جب انسان اپنے نفس کو فنا کر دے اور دل کو ہر قسم کی آلائش سے پاک کرے۔ جب دل "یار" کی تجلی کا مقام بن جائے، تبھی روحانی بلندی حاصل ہوتی ہے۔


---

خلاصہ:

یہ شعر صوفیانہ فلسفے کی بنیاد پر زور دیتا ہے کہ خدا کی قربت اور دیدار ظاہری مقامات یا عبادات سے زیادہ دل کی پاکیزگی اور باطن کی تلاش سے حاصل ہوتا ہے۔ دل کو صاف اور عشقِ حقیقی سے بھرنا ہی اصل راستہ ہے۔ اگر یہ نہ ہو، تو تمام ظاہری کوششیں بے کار ہیں۔

1 year ago | [YT] | 212

Mehv e Raqs

صوفیانہ شرح:

1. عشق کی آمد اور اس کی سرایت:

مولانا رومی عشق کو خون سے تشبیہ دیتے ہیں، جو جسم کی ہر رگ اور ہر خلیے میں دوڑتا ہے۔ یہ عشق صرف ایک جذباتی کیفیت نہیں بلکہ ایک مکمل روحانی حالت ہے جو انسان کی ذات کے ہر پہلو کو گھیر لیتی ہے

عشقِ حقیقی انسان کے ظاہر اور باطن دونوں پر غالب آجاتا ہے، جس طرح خون جسم کے تمام حصوں تک پہنچتا ہے۔

اس تشبیہ سے رومی یہ بتاتے ہیں کہ عشقِ الٰہی محض سطحی تجربہ نہیں، بلکہ یہ انسانی وجود کے ہر ذرے میں سرایت کرتا ہے۔


2. تہی ہونا (خالی ہونا):

عشقِ حقیقی جب انسان کے وجود میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے انسان کے نفس، خواہشات، اور دنیاوی علائق کو خالی کر دیتا ہے۔

یہ "تہی ہونا" نفس کی فنا (self-annihilation) کی علامت ہے، جو صوفیانہ تجربے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

مولانا کے نزدیک یہ خالی پن ضروری ہے، کیونکہ جب تک انسان اپنی خواہشات سے آزاد نہیں ہوگا، وہ خدا کی محبت کو حاصل نہیں کر سکتا۔


3. پر ہونا (دوست سے بھر جانا):

جب انسان اپنے آپ کو خالی کر لیتا ہے، تو خدا کی محبت اور تجلی سے بھر جاتا ہے۔

"دوست" یہاں اللہ کی ذات کے لیے استعمال ہوا ہے، جو صوفی شعری روایت میں محبوبِ حقیقی کا استعارہ ہے۔

یہ کیفیت وصل (union) یا قربِ الٰہی کی ہے، جب انسان اپنی ذات کو کھو کر خدا کی ذات میں فنا ہو جاتا ہے اور حقیقت کو پا لیتا ہے۔


4. عشق کی transformative (بدل دینے والی) قوت:

رومی اس شعر میں عشق کو ایک تبدیلی لانے والی قوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ عشق انسان کو مادی دنیا کی تنگیوں سے نکال کر لامحدود روحانی دنیا کی وسعتوں میں لے جاتا ہے۔

عشقِ حقیقی انسان کو اس کی محدودیت سے آزاد کر کے لامحدود ذاتِ الٰہی کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔



---

صوفیانہ فلسفے کے مطابق:

عشق کا مقام: عشق صوفی کے سفرِ معرفت کا سب سے بلند مقام ہے، جہاں اس کا ہر عمل، ہر سوچ، اور ہر خواہش صرف اللہ کے لیے ہوتی ہے۔

نفس کی فنا: "تہی" ہونے کا مطلب یہ ہے کہ صوفی اپنے آپ کو اپنے وجود کی تمام آلائشوں سے پاک کرتا ہے، تاکہ خدا کی محبت اس کے وجود میں مکمل طور پر سما جائے۔

وصل کی کیفیت: "پر کرد ز دوست" صوفیانہ وصل کی حالت ہے، جسے "فنا فی اللہ" کہا جاتا ہے۔



---

عملی سبق:

یہ شعر ہمیں اس بات کا سبق دیتا ہے کہ اگر ہم اپنی خواہشات، خودغرضی، اور مادی دنیا کی محبت سے خود کو خالی کر لیں، تو ہمیں خدا کی محبت اور قرب حاصل ہوگا۔ یہ قرب ہمیں ایک نئی زندگی، نیا شعور، اور نیا مقصد عطا کرے گا۔

مولانا رومی کے مطابق، حقیقی زندگی کا آغاز اسی وقت ہوتا ہے جب عشق ہمارے وجود میں خون کی طرح دوڑنے لگتا ہے اور ہمیں حقیقی معنوں میں خدا کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔

1 year ago | [YT] | 179

Mehv e Raqs

یہ مولانا رومی کا یہ شعر عشق الٰہی کی طاقت اور انسان کو مادی و روحانی قید سے آزاد کرنے کی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔


---

1. "جامہ ز عشق چاک شدن" (عشق کے سبب لباس کا چاک ہونا):

یہاں "جامہ" سے مراد شعور دوئی و صورت کا گمان ہے

عشق الٰہی سے مراد شعور یکتائی و حقیقت کا گیان ہے

"چاک شدن" وہ کیفیت ہے جب انسان اپنے نفس کی محدودیت کو ختم کر دیتا ہے اور اللہ کے عشق میں مکمل طور پر فنا ہو جاتا ہے۔

یہ ایک استعاراتی اظہار ہے جو عشق الٰہی کی شدت کو ظاہر کرتا ہے، جہاں انسان اپنی دنیاوی شناخت کو کھو کر اپنی حقیقت کو پہچانتا ہے۔



---

2. "او ز ہر دو عالم پاک شد" (وہ دونوں جہانوں سے پاک ہو گیا):

"ہر دو عالم" مادی دنیا (دنیا) اور اخروی دنیا (آخرت) کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

جو شخص عشق کے مقام پر پہنچ جاتا ہے، وہ دنیاوی خواہشات اور اخروی لالچ دونوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ وہ صرف اللہ کی محبت میں گم ہو جاتا ہے اور کسی بدلے یا انعام کی طلب نہیں رکھتا۔

صوفیاء کے نزدیک عشق الٰہی کی معراج وہ مقام ہے جہاں انسان نہ دنیا کا محتاج رہتا ہے اور نہ جنت کا طلبگار، بلکہ صرف اللہ کی رضا اور قربت کا خواہاں ہوتا ہے

1 year ago | [YT] | 213

Mehv e Raqs

یہ اشعار صوفیانہ وحدت کی بنیاد پر انسان اور کائنات کے تعلق کو بیان کرتے ہیں۔ صوفی نظریہ کہتا ہے کہ:

1. انسان کائنات کا آئینہ ہے:
انسان کی باطنی حقیقت میں کائنات کے تمام راز پوشیدہ ہیں۔ صوفیاء کہتے ہیں کہ "من عرف نفسه فقد عرف ربه" یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔


2. کائنات انسان کا آئینہ ہے:
ہر چیز میں انسان کے شعور اور ذات کا عکس موجود ہے، کیونکہ انسان حق تعالیٰ کی سب سے اعلیٰ تخلیق ہے۔


3. اس بیان کی پاکیزگی اس بات میں ہے کہ یہ وحدت اور یگانگت کی وضاحت کرتا ہے، جہاں انسان اور کائنات ایک ہی حقیقت کا اظہار ہیں

دوسرا شعر صوفیانہ وحدت الشہود کے فلسفے کو بیان کرتا ہے۔ صوفی نظریہ یہ بتاتا ہے کہ:

1. خدا ہر جگہ موجود ہے:
خدا نہ صرف کائنات کو دیکھ رہا ہے بلکہ خود کو بھی کائنات کے ہر ذرے میں ظاہر کر رہا ہے۔


2. دیکھنے والا اور دکھائی دینے والا ایک ہے:
مشاہدہ کرنے والا (انسان)، مشاہدہ کی جانے والی چیز (کائنات)، اور مشاہدے کا عمل (دیدار) سب خدا کی ذات کی مختلف صورتیں ہیں۔


3. صوفیاء اس حقیقت کو "حق کی تجلی" کہتے ہیں، جہاں خدا اپنے آپ کو اپنی تخلیق کے ذریعے ظاہر کرتا

یہ اشعار انسان کو کائنات کی گہرائی میں جھانکنے اور اپنی ذات میں خدا کی قربت کا احساس دلانے کی دعوت دیتے ہیں۔ صوفیاء کے نزدیک یہ دنیا خدا کے حسن کا آئینہ ہے اور انسان وہ آنکھ ہے جو اس حسن کو دیکھنے کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔
یہ اشعار اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ انسان جب اپنی حقیقت کو پہچانتا ہے تو وہ خدا کے قریب ہو جاتا ہے، اور اس قربت کے ذریعے کائنات کے اسرار بھی اس پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔

1 year ago | [YT] | 151