Through this channel, I am sharing my knowledge with you all. This is my way of offering and receiving the valuable Time Knowledge Nazrana (TKN) from each of my students. Please subscribe, like, and comment to show your support.
Our STEM and Robotics program is going successfully. One month has been completed, and the course is almost finished except for Canva, which Insha’Allah we will cover in the coming days.”
STEM and Robotics Alhamdulillah, today I officially commenced *📌the STEM and Robotics* classes in Teru Cluster under the kind supervision of the *👉Local Council Gulaghmuli.
انسانی زندگی قدرت کا انمول تحفہ ہے جو جذبات، اقدار اور رشتوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس کے مقابلے میں مصنوعی ذہانت (AI) انسان کی ایجاد ہے جو زندگی کو آسان بنانے کے لیے تیار کی گئی ہے۔ دونوں ہی موجودہ اور مستقبل کی دنیا کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
2. انسانی زندگی کی اہمیت
انسانی زندگی اس لیے منفرد ہے کیونکہ اس میں احساسات، اخلاقیات اور فیصلے کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ مشینیں محبت، ہمدردی اور رحم نہیں رکھ سکتیں، جبکہ انسان اپنی عقل و شعور سے نئی ایجادات اور دریافتیں کرتا ہے۔
3. مصنوعی ذہانت کا عروج
مصنوعی ذہانت نے جدید دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ تعلیم، علاج، کاروبار اور رابطے کے میدان میں اے آئی نے حیران کن ترقی کی ہے۔ اب مشینیں ڈیٹا کا تجزیہ کر سکتی ہیں، مسائل حل کر سکتی ہیں اور انسان جیسا سوچنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔
4. انسانی زندگی اور اے آئی کا موازنہ
انسان خالق ہے جبکہ اے آئی مخلوق ہے۔ انسانی زندگی جذبات اور قدرتی ارتقا پر مبنی ہے جبکہ اے آئی پروگرامنگ اور ڈیٹا پر انحصار کرتی ہے۔ انسان تخلیقی سوچ رکھتا ہے، مگر اے آئی صرف اپنی حدود تک محدود ہے۔ اسی لیے اے آئی انسان کی مدد تو کر سکتی ہے مگر اس کی اصل کو کبھی نہیں بدل سکتی۔
5. انسانی زندگی پر اے آئی کے اثرات
اے آئی نے سہولت، رفتار اور پیداوار میں اضافہ کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ بے روزگاری، پرائیویسی کے مسائل اور اخلاقی خطرات بھی بڑھ رہے ہیں۔ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو یہ انسان کی خود مختاری کو متاثر کر سکتی ہے۔
6. اختتامیہ
انسانی زندگی ہمیشہ مصنوعی ذہانت سے زیادہ قیمتی رہے گی کیونکہ مشینیں انسانی جذبات، اقدار اور تخلیقی صلاحیت کی جگہ نہیں لے سکتیں۔ بہترین مستقبل اسی میں ہے کہ انسان اپنی عقل کے ساتھ اے آئی کو ایک مددگار اوزار کے طور پر استعمال کرے، نہ کہ اس کا متبادل بنائے۔
"Alhamdulillah, I have successfully obtained the Premium Certificate for IT Career Development with the generous and free support of AKEPB. Through this program, I gained valuable new skills and knowledge in IT Technical Support Fundamentals."
ستاروں کی خاموش دنیا سے زمین کی ہلچل بھری زندگی میں واپسی، ایک خلا نورد کے لیے کسی جادوئی کہانی سے کم نہیں ہوتی۔ وہاں وہ بے وزنی کی خوبصورتی میں تیر رہے ہوتے ہیں اور یہاں زمین کی کششِ ثقل انہیں باندھ کر رکھ دیتی ہے۔ خلا میں مہینوں گزارنے کے بعد جب وہ ایک بار پھر زمین کی کششِ ثقل کے زیرِ اثر آتا ہے تو اس کے پٹھے کمزور، ہڈیاں نازک اور دل کی دھڑکن میں ایک عجیب سی بے ترتیبی پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔ خلا میں رہنے کے دوران جسم جیسے سست روی کا عادی ہو جاتا ہے مگر زمین پر واپس آ کر اسے اچانک بھاری پن کا سامنا کرنا پڑتا ہے یوں لگتا ہے جیسے جسم اپنا ہی بوجھ اٹھانے سے قاصر ہو۔ بعض اوقات وہ سیدھا کھڑا بھی نہیں ہو سکتا اور چلنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ خون جو خلا میں یکساں طور پر گردش کر رہا تھا، زمین پر آتے ہی کششِ ثقل کی بدولت نیچے کی طرف کھنچنے لگتا ہے جس سے سر چکرانے لگتا ہے اور کمزوری محسوس ہوتی ہے۔
یہ سب کچھ صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی خلا نورد ایک عجیب کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ مہینوں تک زمین سے ہزاروں میل دور رہنے کے بعد زمین پر عام لوگوں کے درمیان ہونا بھی ایک غیر حقیقی تجربہ لگتا ہے۔ نیند کا نظام بگڑ چکا ہوتا ہے، روشنی اور اندھیرے کا معمول متاثر ہوتا ہے اور اکثر انہیں زمین کے شور شرابے اور ہجوم سے گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے۔ کچھ خلانوردوں کی بینائی کمزور ہو جاتی ہے کیونکہ خلا میں آنکھوں کے پیچھے دباؤ بڑھ جاتا ہے، جو زمین پر واپس آ کر دھندلے پن یا نظر کی خرابی کا باعث بنتا ہے۔ خلا میں ہڈیاں کیلشیم کھونا شروع کر دیتی ہیں، جس کی وجہ سے واپسی پر ہڈیوں کی کمزوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کسی بوڑھے شخص کو ہو۔
مگر ناسا کے سائنسدان ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے پوری تیاری رکھتے ہیں۔ واپسی کے فوراً بعد، خلا نوردوں کا مکمل طبی معائنہ کیا جاتا ہے اور انہیں ورزش، خاص غذاؤں اور مخصوص تھراپیز کے ذریعے صحت یابی کے ایک منظم پروگرام سے گزارا جاتا ہے۔ ان کے جسم کو زمین کے ماحول سے دوبارہ ہم آہنگ کرنے کے لیے جدید ترین طبی اور سائنسی تکنیکیں استعمال کی جاتی ہیں۔ کچھ خلانورد چند ہفتوں میں خود کو سنبھال لیتے ہیں، جبکہ کچھ کو مہینوں لگ جاتے ہیں۔ اس تمام عرصے میں، وہ مسلسل ڈاکٹروں، ماہرین نفسیات اور فزیوتھراپسٹ کی نگرانی میں رہتے ہیں، تاکہ زمین پر واپسی کا عمل آسان بنایا جا سکے۔
یقیناً، خلابازوں کا یہ سفر محض ایک واپسی نہیں، بلکہ ایک ایسی قربانی ہے جو کائنات کے خاموش رازوں کو زمین پر لاتی ہے۔ یہ وہ سائنسی خدمت ہے جو ستاروں کی گہرائیوں سے لائے گئے انمول ڈیٹا اور تجربات کے ذریعے ہمیں کائنات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ سفر ہمارے محفوظ اور شاندار مستقبل کی بنیاد رکھتا ہے جہاں ہم نہ صرف اپنی زمین کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں بلکہ کائنات میں زندگی کے امکانات اور مستقبل کے سفر کے لیے بھی راہیں ہموار کرتے ہیں۔ ہر خلاباز کا یہ مشن ایک داستان ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی جستجو اور ہمت کی کوئی حد نہیں اور یہ کہ کائنات کے اسرار کو جاننے کی ہماری خواہش ہی ہمیں ایک روشن مستقبل کی طرف لے جاتی ہے۔
حالیہ دنوں میں ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت (AI) کے میدان میں کئی اہم تحقیقات اور پیش رفت سامنے آئی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی نے مختلف شعبوں میں نئے مواقع اور چیلنجز کو جنم دیا ہے۔
مصنوعی ذہانت کی ترقی اور اس کے چیلنجز:
ماہرین کے مطابق، مصنوعی ذہانت کی تیز تر ترقی کے ساتھ ساتھ متعدد چیلنجز بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ان میں انسانی ملازمتوں کا متبادل بننے، معاشرتی اور اخلاقی اقدار پر اثرات، اور عسکری مقاصد کے لیے اس ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی پر تحقیق اور ترقی کا مقصد انسانوں کے لیے مؤثر اور مستعد روبوٹس بنانا ہے، خاص طور پر جنگی اور تجارتی مقاصد کے لیے۔
پاکستان میں مصنوعی ذہانت کی پیش رفت:
پاکستان میں بھی مصنوعی ذہانت کے میدان میں پیش رفت جاری ہے۔ نسٹ یونیورسٹی کے 'انٹیلیجنٹ روبوٹکس لیب' میں مصنوعی ذہانت سے لیس ڈرون تیار کیے جا رہے ہیں جو نگرانی، ریلوے ٹریکس کی مانیٹرنگ، ٹریفک مینجمنٹ اور سرحدی نگرانی جیسے کاموں کے لیے استعمال ہو سکیں گے۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اس میدان میں ابھی ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے ہے اور مزید سرمایہ کاری اور تحقیق کی ضرورت ہے۔
مصنوعی ذہانت کا مستقبل:
مصنوعی ذہانت کے استعمال نے تعلیم، تحقیق، ترقی اور صحت سمیت مختلف شعبوں میں تیز تر ترقی کی نئی راہیں کھولی ہیں۔ تاہم، مشینوں پر انحصار دنیا کے لیے نت نئے چیلنجز بھی پیدا کر رہا ہے۔ ماہرین مصنوعی ذہانت کو تاریخ کی سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والی ٹیکنالوجی اور دنیا کی زیادہ سے زیادہ آبادی کو متاثر کرنے والا ایک بے مثال رجحان قرار دے رہے ہیں۔
ان تحقیقات اور پیش رفتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا مستقبل روشن ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ان چیلنجز کا بھی سامنا کرنا ہوگا جو اس ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ کا حال دن بہ دن بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب ہماری ٹیم دنیا کی بہترین ٹیموں میں شمار ہوتی تھی، لیکن آج کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ کا خدا حافظ کہنے کا وقت قریب آ چکا ہے۔ کھلاڑی ایسے کھیل رہے ہیں جیسے یہ کوئی بچوں کا کھیل ہو، نہ کوئی حکمت عملی نظر آتی ہے، نہ کوئی سنجیدگی، اور نہ ہی جیتنے کا جنون۔
ایک طرف یہ کھلاڑی ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں، اور دوسری طرف ان کا رویہ اور کارکردگی انتہائی غیر پیشہ ورانہ ہے۔ میدان میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں شکست کی پرواہ ہی نہیں۔ نہ فٹنس کا خیال رکھا جا رہا ہے، نہ ہی کھیل کی باریکیوں پر توجہ دی جا رہی ہے۔ بیٹنگ میں کوئی تسلسل نہیں، باؤلنگ میں کوئی جادوگری نہیں، اور فیلڈنگ تو ایسی ہے کہ جیسے کسی گلی محلے کی ٹیم کھیل رہی ہو۔
خدارا، اگر تمہیں ملک کی عزت کا ذرا بھی احساس ہے تو دوسرے کامیاب کھلاڑیوں سے کچھ سیکھو! دنیا بھر کی ٹیمیں محنت کر رہی ہیں، اپنی کمزوریوں پر قابو پا رہی ہیں، اپنی صلاحیتوں کو نکھار رہی ہیں، اور ہم اب بھی پرانی روایات پر چل رہے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب کرکٹ کے میدان میں ہمارا کوئی نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔
ہمیں تمہیں "تم" کہہ کر بلاتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس کھیل نے پاکستان کو دنیا بھر میں پہچان دی، اور آج تم لوگوں کی لاپروائی اور غیر سنجیدگی کی وجہ سے ہم سب کو شرمندگی اٹھانی پڑ رہی ہے۔ یہ صرف ایک کھیل نہیں، یہ ایک قوم کی عزت اور وقار کا معاملہ ہے، اور اگر تمہیں اس کا احساس نہیں تو پھر تمہیں ملک کی نمائندگی کا بھی کوئی حق نہیں!
چین کی ہوبے میڈیکل یونیورسٹی کے محققین نے ایک تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ سونے سے پہلے مختصر ویڈیوز دیکھنے کی عادت صحت پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ اس مطالعے میں 4,318 افراد کی اسکرین ٹائم سے متعلق عادات اور طبی معائنے کے نتائج کا تجزیہ کیا گیا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ رات کو سونے سے قبل مختصر ویڈیوز دیکھنے کا رجحان نوجوانوں اور درمیانی عمر کے افراد میں ہائی بلڈ پریشر کے بڑھتے ہوئے خطرے سے جُڑا ہو سکتا ہے۔
تحقیقی مطالعے کی تفصیلات:
شرکاء کی تعداد: 4,318 افراد
مرکزی نکتہ: سونے سے قبل مختصر ویڈیوز دیکھنے کا دورانیہ اور اس کے اثرات
نتائج:
جو افراد سونے سے پہلے زیادہ دیر تک ویڈیوز دیکھتے ہیں، ان میں ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ زیادہ پایا گیا۔
یہ عادت جسم کے "سمپیتھیٹک نروس سسٹم" کو متحرک کر سکتی ہے، جو جسم کو سرگرمی کے لیے تیار کرتا ہے اور نتیجتاً بلڈ پریشر میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
محققین کی سفارشات:
رات کے وقت اسکرین ٹائم کو محدود کیا جائے۔
جسمانی وزن، بلڈ شوگر، کولیسٹرول، اور یورک ایسڈ کی سطح کو متوازن رکھا جائے۔
زیادہ نمکین غذا کے استعمال سے گریز کیا جائے تاکہ دل کی بیماریوں کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔
یہ تحقیق واضح کرتی ہے کہ سونے سے پہلے زیادہ دیر تک ویڈیوز دیکھنے کی عادت صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے، خصوصاً ہائی بلڈ پریشر کے خطرے کو بڑھا سکتی ہے۔ اس لیے بہتر صحت کے لیے رات کے وقت اسکرین ٹائم کم کرنے کی ضرورت ہے۔
www.tomorrow.bio/ سائنسدانوں کے مطابق، کیا مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے؟ یہ ایک پیچیدہ سوال ہے جس پر بایو ریسرچ (حیاتیاتی تحقیق) میں مختلف پہلوؤں سے غور کیا جا رہا ہے۔ آج کل سائنسدان انسانی جسم کے خلیات، ڈی این اے، اور دماغی سرگرمیوں پر تحقیق کر رہے ہیں تاکہ زندگی اور موت کے عمل کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
بایو ریسرچ میں کریونکس (Cryonics) جیسے تجربات کیے جا رہے ہیں، جس میں جسم کو مرنے کے فوراً بعد انتہائی سرد درجہ حرارت پر محفوظ کیا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں ممکنہ ٹیکنالوجی کے ذریعے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ تاہم، یہ صرف نظریاتی بنیاد پر ہے اور عملی طور پر انسان کو مرنے کے بعد زندہ کرنا موجودہ سائنس کے لیے ممکن نہیں ہے۔
اس کے علاوہ، مصنوعی زندگی یا انسانی خلیات کو دوبارہ فعال کرنے پر بھی تحقیق جاری ہے، مگر اب تک کوئی ایسا طریقہ دریافت نہیں ہوا جو موت کے بعد مکمل طور پر زندگی کو بحال کر سکے۔ یہ موضوع سائنسی، فلسفیانہ، اور اخلاقی بحث کا مرکز بنا ہوا ہے۔
زندگی اور موت دو اٹل حقیقتیں ہیں، جنہیں کسی بھی انسان کے اختیار سے باہر رکھا گیا ہے۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، جو ہمیں موقع دیتی ہے کہ ہم اپنے اعمال درست کریں، نیکی کے کام کریں، اور اپنے مقصدِ حیات کو سمجھیں۔
زندگی میں ہمیں ہمیشہ شکرگزاری، صبر، اور محنت کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔ ہر لمحہ قیمتی ہے، اس لیے وقت کو ضائع کیے بغیر علم حاصل کرنا، دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنا، اور اللہ کے احکامات پر چلنا ضروری ہے۔ زندگی کو مثبت انداز میں گزارنے والے لوگ ہی سکون اور کامیابی پاتے ہیں۔
موت، حقیقت میں ایک نئی زندگی کا دروازہ ہے۔ یہ دنیا کی فانی زندگی کا خاتمہ نہیں، بلکہ اصل زندگی کی شروعات ہے۔ اس لیے ہمیں ایسا جینا چاہیے کہ جب ہم دنیا سے جائیں تو لوگ ہمیں نیک نامی، اچھے اخلاق، اور محبت کے ساتھ یاد کریں۔
"ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے" (القرآن) – اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی زندگی کو نیک اعمال، اچھے اخلاق، اور دوسروں کی خدمت میں گزارنا چاہیے، تاکہ آخرت میں بھی کامیابی نصیب ہو۔
Muhammad Aslam Khan CS Teacher
Our STEM and Robotics program is going successfully. One month has been completed, and the course is almost finished except for Canva, which Insha’Allah we will cover in the coming days.”
4 days ago | [YT] | 2
View 0 replies
Muhammad Aslam Khan CS Teacher
STEM and Robotics
Alhamdulillah, today I officially commenced *📌the STEM and Robotics* classes in Teru Cluster under the kind supervision of the *👉Local Council Gulaghmuli.
Thank you. JazakAllah.
1 month ago | [YT] | 4
View 1 reply
Muhammad Aslam Khan CS Teacher
انسانی زندگی قدرت کا انمول تحفہ ہے جو جذبات، اقدار اور رشتوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس کے مقابلے میں مصنوعی ذہانت (AI) انسان کی ایجاد ہے جو زندگی کو آسان بنانے کے لیے تیار کی گئی ہے۔ دونوں ہی موجودہ اور مستقبل کی دنیا کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
2. انسانی زندگی کی اہمیت
انسانی زندگی اس لیے منفرد ہے کیونکہ اس میں احساسات، اخلاقیات اور فیصلے کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ مشینیں محبت، ہمدردی اور رحم نہیں رکھ سکتیں، جبکہ انسان اپنی عقل و شعور سے نئی ایجادات اور دریافتیں کرتا ہے۔
3. مصنوعی ذہانت کا عروج
مصنوعی ذہانت نے جدید دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ تعلیم، علاج، کاروبار اور رابطے کے میدان میں اے آئی نے حیران کن ترقی کی ہے۔ اب مشینیں ڈیٹا کا تجزیہ کر سکتی ہیں، مسائل حل کر سکتی ہیں اور انسان جیسا سوچنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔
4. انسانی زندگی اور اے آئی کا موازنہ
انسان خالق ہے جبکہ اے آئی مخلوق ہے۔ انسانی زندگی جذبات اور قدرتی ارتقا پر مبنی ہے جبکہ اے آئی پروگرامنگ اور ڈیٹا پر انحصار کرتی ہے۔ انسان تخلیقی سوچ رکھتا ہے، مگر اے آئی صرف اپنی حدود تک محدود ہے۔ اسی لیے اے آئی انسان کی مدد تو کر سکتی ہے مگر اس کی اصل کو کبھی نہیں بدل سکتی۔
5. انسانی زندگی پر اے آئی کے اثرات
اے آئی نے سہولت، رفتار اور پیداوار میں اضافہ کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ بے روزگاری، پرائیویسی کے مسائل اور اخلاقی خطرات بھی بڑھ رہے ہیں۔ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو یہ انسان کی خود مختاری کو متاثر کر سکتی ہے۔
6. اختتامیہ
انسانی زندگی ہمیشہ مصنوعی ذہانت سے زیادہ قیمتی رہے گی کیونکہ مشینیں انسانی جذبات، اقدار اور تخلیقی صلاحیت کی جگہ نہیں لے سکتیں۔ بہترین مستقبل اسی میں ہے کہ انسان اپنی عقل کے ساتھ اے آئی کو ایک مددگار اوزار کے طور پر استعمال کرے، نہ کہ اس کا متبادل بنائے۔
1 month ago (edited) | [YT] | 2
View 0 replies
Muhammad Aslam Khan CS Teacher
"Alhamdulillah, I have successfully obtained the Premium Certificate for IT Career Development with the generous and free support of AKEPB. Through this program, I gained valuable new skills and knowledge in IT Technical Support Fundamentals."
2 months ago | [YT] | 2
View 0 replies
Muhammad Aslam Khan CS Teacher
ستاروں کی خاموش دنیا سے زمین کی ہلچل بھری زندگی میں واپسی، ایک خلا نورد کے لیے کسی جادوئی کہانی سے کم نہیں ہوتی۔ وہاں وہ بے وزنی کی خوبصورتی میں تیر رہے ہوتے ہیں اور یہاں زمین کی کششِ ثقل انہیں باندھ کر رکھ دیتی ہے۔ خلا میں مہینوں گزارنے کے بعد جب وہ ایک بار پھر زمین کی کششِ ثقل کے زیرِ اثر آتا ہے تو اس کے پٹھے کمزور، ہڈیاں نازک اور دل کی دھڑکن میں ایک عجیب سی بے ترتیبی پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔ خلا میں رہنے کے دوران جسم جیسے سست روی کا عادی ہو جاتا ہے مگر زمین پر واپس آ کر اسے اچانک بھاری پن کا سامنا کرنا پڑتا ہے یوں لگتا ہے جیسے جسم اپنا ہی بوجھ اٹھانے سے قاصر ہو۔ بعض اوقات وہ سیدھا کھڑا بھی نہیں ہو سکتا اور چلنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ خون جو خلا میں یکساں طور پر گردش کر رہا تھا، زمین پر آتے ہی کششِ ثقل کی بدولت نیچے کی طرف کھنچنے لگتا ہے جس سے سر چکرانے لگتا ہے اور کمزوری محسوس ہوتی ہے۔
یہ سب کچھ صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی خلا نورد ایک عجیب کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ مہینوں تک زمین سے ہزاروں میل دور رہنے کے بعد زمین پر عام لوگوں کے درمیان ہونا بھی ایک غیر حقیقی تجربہ لگتا ہے۔ نیند کا نظام بگڑ چکا ہوتا ہے، روشنی اور اندھیرے کا معمول متاثر ہوتا ہے اور اکثر انہیں زمین کے شور شرابے اور ہجوم سے گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے۔ کچھ خلانوردوں کی بینائی کمزور ہو جاتی ہے کیونکہ خلا میں آنکھوں کے پیچھے دباؤ بڑھ جاتا ہے، جو زمین پر واپس آ کر دھندلے پن یا نظر کی خرابی کا باعث بنتا ہے۔ خلا میں ہڈیاں کیلشیم کھونا شروع کر دیتی ہیں، جس کی وجہ سے واپسی پر ہڈیوں کی کمزوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کسی بوڑھے شخص کو ہو۔
مگر ناسا کے سائنسدان ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے پوری تیاری رکھتے ہیں۔ واپسی کے فوراً بعد، خلا نوردوں کا مکمل طبی معائنہ کیا جاتا ہے اور انہیں ورزش، خاص غذاؤں اور مخصوص تھراپیز کے ذریعے صحت یابی کے ایک منظم پروگرام سے گزارا جاتا ہے۔ ان کے جسم کو زمین کے ماحول سے دوبارہ ہم آہنگ کرنے کے لیے جدید ترین طبی اور سائنسی تکنیکیں استعمال کی جاتی ہیں۔ کچھ خلانورد چند ہفتوں میں خود کو سنبھال لیتے ہیں، جبکہ کچھ کو مہینوں لگ جاتے ہیں۔ اس تمام عرصے میں، وہ مسلسل ڈاکٹروں، ماہرین نفسیات اور فزیوتھراپسٹ کی نگرانی میں رہتے ہیں، تاکہ زمین پر واپسی کا عمل آسان بنایا جا سکے۔
یقیناً، خلابازوں کا یہ سفر محض ایک واپسی نہیں، بلکہ ایک ایسی قربانی ہے جو کائنات کے خاموش رازوں کو زمین پر لاتی ہے۔ یہ وہ سائنسی خدمت ہے جو ستاروں کی گہرائیوں سے لائے گئے انمول ڈیٹا اور تجربات کے ذریعے ہمیں کائنات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ سفر ہمارے محفوظ اور شاندار مستقبل کی بنیاد رکھتا ہے جہاں ہم نہ صرف اپنی زمین کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں بلکہ کائنات میں زندگی کے امکانات اور مستقبل کے سفر کے لیے بھی راہیں ہموار کرتے ہیں۔ ہر خلاباز کا یہ مشن ایک داستان ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی جستجو اور ہمت کی کوئی حد نہیں اور یہ کہ کائنات کے اسرار کو جاننے کی ہماری خواہش ہی ہمیں ایک روشن مستقبل کی طرف لے جاتی ہے۔
6 months ago | [YT] | 3
View 1 reply
Muhammad Aslam Khan CS Teacher
حالیہ دنوں میں ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت (AI) کے میدان میں کئی اہم تحقیقات اور پیش رفت سامنے آئی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی نے مختلف شعبوں میں نئے مواقع اور چیلنجز کو جنم دیا ہے۔
مصنوعی ذہانت کی ترقی اور اس کے چیلنجز:
ماہرین کے مطابق، مصنوعی ذہانت کی تیز تر ترقی کے ساتھ ساتھ متعدد چیلنجز بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ان میں انسانی ملازمتوں کا متبادل بننے، معاشرتی اور اخلاقی اقدار پر اثرات، اور عسکری مقاصد کے لیے اس ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی پر تحقیق اور ترقی کا مقصد انسانوں کے لیے مؤثر اور مستعد روبوٹس بنانا ہے، خاص طور پر جنگی اور تجارتی مقاصد کے لیے۔
پاکستان میں مصنوعی ذہانت کی پیش رفت:
پاکستان میں بھی مصنوعی ذہانت کے میدان میں پیش رفت جاری ہے۔ نسٹ یونیورسٹی کے 'انٹیلیجنٹ روبوٹکس لیب' میں مصنوعی ذہانت سے لیس ڈرون تیار کیے جا رہے ہیں جو نگرانی، ریلوے ٹریکس کی مانیٹرنگ، ٹریفک مینجمنٹ اور سرحدی نگرانی جیسے کاموں کے لیے استعمال ہو سکیں گے۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اس میدان میں ابھی ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے ہے اور مزید سرمایہ کاری اور تحقیق کی ضرورت ہے۔
مصنوعی ذہانت کا مستقبل:
مصنوعی ذہانت کے استعمال نے تعلیم، تحقیق، ترقی اور صحت سمیت مختلف شعبوں میں تیز تر ترقی کی نئی راہیں کھولی ہیں۔ تاہم، مشینوں پر انحصار دنیا کے لیے نت نئے چیلنجز بھی پیدا کر رہا ہے۔ ماہرین مصنوعی ذہانت کو تاریخ کی سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والی ٹیکنالوجی اور دنیا کی زیادہ سے زیادہ آبادی کو متاثر کرنے والا ایک بے مثال رجحان قرار دے رہے ہیں۔
ان تحقیقات اور پیش رفتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا مستقبل روشن ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ان چیلنجز کا بھی سامنا کرنا ہوگا جو اس ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں۔
6 months ago | [YT] | 3
View 0 replies
Muhammad Aslam Khan CS Teacher
پاکستان کرکٹ کا حال دن بہ دن بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب ہماری ٹیم دنیا کی بہترین ٹیموں میں شمار ہوتی تھی، لیکن آج کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ کا خدا حافظ کہنے کا وقت قریب آ چکا ہے۔ کھلاڑی ایسے کھیل رہے ہیں جیسے یہ کوئی بچوں کا کھیل ہو، نہ کوئی حکمت عملی نظر آتی ہے، نہ کوئی سنجیدگی، اور نہ ہی جیتنے کا جنون۔
ایک طرف یہ کھلاڑی ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں، اور دوسری طرف ان کا رویہ اور کارکردگی انتہائی غیر پیشہ ورانہ ہے۔ میدان میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں شکست کی پرواہ ہی نہیں۔ نہ فٹنس کا خیال رکھا جا رہا ہے، نہ ہی کھیل کی باریکیوں پر توجہ دی جا رہی ہے۔ بیٹنگ میں کوئی تسلسل نہیں، باؤلنگ میں کوئی جادوگری نہیں، اور فیلڈنگ تو ایسی ہے کہ جیسے کسی گلی محلے کی ٹیم کھیل رہی ہو۔
خدارا، اگر تمہیں ملک کی عزت کا ذرا بھی احساس ہے تو دوسرے کامیاب کھلاڑیوں سے کچھ سیکھو! دنیا بھر کی ٹیمیں محنت کر رہی ہیں، اپنی کمزوریوں پر قابو پا رہی ہیں، اپنی صلاحیتوں کو نکھار رہی ہیں، اور ہم اب بھی پرانی روایات پر چل رہے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب کرکٹ کے میدان میں ہمارا کوئی نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔
ہمیں تمہیں "تم" کہہ کر بلاتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس کھیل نے پاکستان کو دنیا بھر میں پہچان دی، اور آج تم لوگوں کی لاپروائی اور غیر سنجیدگی کی وجہ سے ہم سب کو شرمندگی اٹھانی پڑ رہی ہے۔ یہ صرف ایک کھیل نہیں، یہ ایک قوم کی عزت اور وقار کا معاملہ ہے، اور اگر تمہیں اس کا احساس نہیں تو پھر تمہیں ملک کی نمائندگی کا بھی کوئی حق نہیں!
7 months ago | [YT] | 2
View 0 replies
Muhammad Aslam Khan CS Teacher
چین کی ہوبے میڈیکل یونیورسٹی کے محققین نے ایک تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ سونے سے پہلے مختصر ویڈیوز دیکھنے کی عادت صحت پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ اس مطالعے میں 4,318 افراد کی اسکرین ٹائم سے متعلق عادات اور طبی معائنے کے نتائج کا تجزیہ کیا گیا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ رات کو سونے سے قبل مختصر ویڈیوز دیکھنے کا رجحان نوجوانوں اور درمیانی عمر کے افراد میں ہائی بلڈ پریشر کے بڑھتے ہوئے خطرے سے جُڑا ہو سکتا ہے۔
تحقیقی مطالعے کی تفصیلات:
شرکاء کی تعداد: 4,318 افراد
مرکزی نکتہ: سونے سے قبل مختصر ویڈیوز دیکھنے کا دورانیہ اور اس کے اثرات
نتائج:
جو افراد سونے سے پہلے زیادہ دیر تک ویڈیوز دیکھتے ہیں، ان میں ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ زیادہ پایا گیا۔
یہ عادت جسم کے "سمپیتھیٹک نروس سسٹم" کو متحرک کر سکتی ہے، جو جسم کو سرگرمی کے لیے تیار کرتا ہے اور نتیجتاً بلڈ پریشر میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
محققین کی سفارشات:
رات کے وقت اسکرین ٹائم کو محدود کیا جائے۔
جسمانی وزن، بلڈ شوگر، کولیسٹرول، اور یورک ایسڈ کی سطح کو متوازن رکھا جائے۔
زیادہ نمکین غذا کے استعمال سے گریز کیا جائے تاکہ دل کی بیماریوں کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔
یہ تحقیق واضح کرتی ہے کہ سونے سے پہلے زیادہ دیر تک ویڈیوز دیکھنے کی عادت صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے، خصوصاً ہائی بلڈ پریشر کے خطرے کو بڑھا سکتی ہے۔ اس لیے بہتر صحت کے لیے رات کے وقت اسکرین ٹائم کم کرنے کی ضرورت ہے۔
7 months ago | [YT] | 4
View 0 replies
Muhammad Aslam Khan CS Teacher
www.tomorrow.bio/
سائنسدانوں کے مطابق، کیا مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے؟ یہ ایک پیچیدہ سوال ہے جس پر بایو ریسرچ (حیاتیاتی تحقیق) میں مختلف پہلوؤں سے غور کیا جا رہا ہے۔ آج کل سائنسدان انسانی جسم کے خلیات، ڈی این اے، اور دماغی سرگرمیوں پر تحقیق کر رہے ہیں تاکہ زندگی اور موت کے عمل کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
بایو ریسرچ میں کریونکس (Cryonics) جیسے تجربات کیے جا رہے ہیں، جس میں جسم کو مرنے کے فوراً بعد انتہائی سرد درجہ حرارت پر محفوظ کیا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں ممکنہ ٹیکنالوجی کے ذریعے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ تاہم، یہ صرف نظریاتی بنیاد پر ہے اور عملی طور پر انسان کو مرنے کے بعد زندہ کرنا موجودہ سائنس کے لیے ممکن نہیں ہے۔
اس کے علاوہ، مصنوعی زندگی یا انسانی خلیات کو دوبارہ فعال کرنے پر بھی تحقیق جاری ہے، مگر اب تک کوئی ایسا طریقہ دریافت نہیں ہوا جو موت کے بعد مکمل طور پر زندگی کو بحال کر سکے۔ یہ موضوع سائنسی، فلسفیانہ، اور اخلاقی بحث کا مرکز بنا ہوا ہے۔
8 months ago | [YT] | 2
View 0 replies
Muhammad Aslam Khan CS Teacher
زندگی اور موت دو اٹل حقیقتیں ہیں، جنہیں کسی بھی انسان کے اختیار سے باہر رکھا گیا ہے۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، جو ہمیں موقع دیتی ہے کہ ہم اپنے اعمال درست کریں، نیکی کے کام کریں، اور اپنے مقصدِ حیات کو سمجھیں۔
زندگی میں ہمیں ہمیشہ شکرگزاری، صبر، اور محنت کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔ ہر لمحہ قیمتی ہے، اس لیے وقت کو ضائع کیے بغیر علم حاصل کرنا، دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنا، اور اللہ کے احکامات پر چلنا ضروری ہے۔ زندگی کو مثبت انداز میں گزارنے والے لوگ ہی سکون اور کامیابی پاتے ہیں۔
موت، حقیقت میں ایک نئی زندگی کا دروازہ ہے۔ یہ دنیا کی فانی زندگی کا خاتمہ نہیں، بلکہ اصل زندگی کی شروعات ہے۔ اس لیے ہمیں ایسا جینا چاہیے کہ جب ہم دنیا سے جائیں تو لوگ ہمیں نیک نامی، اچھے اخلاق، اور محبت کے ساتھ یاد کریں۔
"ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے" (القرآن) – اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی زندگی کو نیک اعمال، اچھے اخلاق، اور دوسروں کی خدمت میں گزارنا چاہیے، تاکہ آخرت میں بھی کامیابی نصیب ہو۔
8 months ago | [YT] | 6
View 4 replies