M Aslam khan khichi

News, Politics & current affairs


M Aslam khan khichi

‏شہزادہ داؤد، ٹائیٹن آب دوز اور سورة نور آیت40
اوشین گیٹ 2021سے ارب پتیوں کو سمندر کی تہہ میں 3300 میٹر نیچے ٹائی ٹینک کے ملبے کی سیر کرا رہی ہے۔ ٹائی ٹینک کا ملبہ 1985 میں دریافت ہوا اور اوشین گیٹ نے 2021 سے دنیا بھر کے امراء کو اس کی سیر کرانی شروع کر دیی۔
شہزادہ داؤد اور سلیمان داؤد 18 جون کو ٹائیٹن میں سوار ہوئے اور آب دوز پانی میں اتر گئی۔ایک گھنٹہ 45 منٹ بعد آب دوز کا کنٹرول روم سے رابطہ ٹوٹ گیا، آج تک کی تحقیقات کے مطابق آب دوز پونے دو گھنٹے بعد Bathypelagic Zone میں دھماکے سے پھٹ گئ اور یہ زون 3 ہزار میٹر کی گہرائی میں ہے۔
آب دوز کی دم اور لینڈنگ فریم ٹائی ٹینک کے ملبے سے 1600 فٹ کے فاصلے سے ملا تاہم لاشیں غائب تھیں اور یہ لاشیں سرے دست کسی ٹیکنالوجی کی مدد سے دریافت نہیں ہو سکتیں، کیوں نہیں ہو سکتیں؟

6 months ago | [YT] | 0

M Aslam khan khichi

Ghazwa-e-Hind, Current Military Tensions, and Our Responsibility
Written by: Aslam Khan

Ghazwa-e-Hind is a well-known Islamic prophecy mentioned in some hadiths. It refers to a great battle that will take place in India before the Day of Judgment, in which Muslims will be granted victory. Some narrations describe this army as faithful and even destined for Paradise. However, scholars hold differing views on the matter. Some interpret it as referring to past conquests—such as those by Muhammad bin Qasim or Mahmud of Ghazni—while others consider it a future prophecy. It is important to approach religious matters with caution and knowledge, so this topic should be kept away from political slogans and emotional rhetoric.

In today's context, as we face rising tensions, the question becomes crucial: Is a major war truly imminent in the region? On the night between May 6 and 7, 2025, under "Operation Sindoor," India launched missile strikes on nine locations in Pakistan and Azad Kashmir, claiming it as an operation against terrorism. These attacks resulted in several civilian casualties and dozens of injuries.

Pakistan responded swiftly and effectively, targeting an Indian brigade in Muzaffarabad and launching a successful strike on Srinagar Airport. Reports confirm that two Rafale fighter jets were destroyed. At present, around 300 Indian aircraft are flying from Karachi to Kashmir, while the Pakistan Air Force remains fully alert.

It's true that India holds a numerical advantage over Pakistan, but history has proven that wars are not won by numbers alone. If that were the case, the 313 Muslims at the Battle of Badr would never have emerged victorious. True strength lies in faith, wisdom, and strategy.

A critical question remains: Can either country afford a prolonged war? The answer is: No. Both nations can barely sustain a war lasting more than eight days. Although the international media calls India the world’s fifth-largest economy, the reality on the ground is different. About 80% of India's population lives below the poverty line. Hunger, deprivation, and backwardness are rampant in many states. The glamour of Delhi and Mumbai does not reflect the real India.

Pakistan, too, faces economic challenges, but it possesses a strategic defense advantage. Due to shorter border distances, defense is more manageable, and Pakistan often proceeds with better planning despite limited resources.

At this time, both nations must consider not only their own citizens but also the safety of the region. While both are nuclear powers, India has signed a "No First Use" policy, whereas Pakistan has made no such commitment. If the situation worsens, Pakistan may use tactical nuclear weapons, which could severely damage India. This potential is what has repeatedly made India back down.

All of this chaos was triggered by one man's ego: Narendra Modi. To win elections, he blamed the Pahalgam attack on Pakistan and escalated the tension. Indian media fueled the fire to the point that Modi had no choice but to initiate war. Now, if he seeks a ceasefire, it may cost him his political career. On the other hand, if Pakistani leadership retreats, their political future could also be at risk.

In my personal analysis, this war will not last long. At most, it will continue for three to seven days. A few strikes, some counterattacks, and then, due to diplomatic pressure or internal constraints, the conflict will subside. Unfortunately, innocent people will die during this time, but the decision-makers will remain safe as always.

Therefore, instead of reacting emotionally, we must stand by our armed forces, boost their morale, and put aside our internal differences to confront the external threat. After the war, we will return to our domestic issues, but for now, unity

7 months ago | [YT] | 0

M Aslam khan khichi

جب پھول کھلیں گے تب تقدیر بدلے گی
محمد اسلم خان
1997 خزاں کی عمر رسیدہ شام تھی ہلکی ہلکی خنک ہوا روح کو چھو رہی تھی. مغرب سے کچھ پہلے عمران خان میانوالی میں ایک چھوٹے سے ہجوم سے خطاب کے بعد سٹیج سے اترے تو بہت خوش تھے.

چھوٹی چھوٹی نیکریں پہنے معصوم بچے خراماں خراماں NiSSAN PETROL کے ساتھ چلتے ہوئے جوشیلی آواز میں نعرے لگا رہے تھے.

" عمران خان زندہ آباد "

مقامی اخبار نویس نے سوال کیا
خان صاحب آپ کب وزیر اعظم بنیں گے؟

عمران خان مسکرائے : گاڑی رکی , خان صاحب گاڑی سے اترے تجسس کے مارے میں بھی گاڑی سے اتر گیا.

خان صاحب نے ایک گول مٹول نیکر پہنے نعرے لگاتے خوبصورت بچے کے سر پہ شفقت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:

"جب یہ معصوم کلیاں پھول بنیں گی تب میں وزیراعظم بنوں گا"

یہ کہتے ہی وہ رپورٹر کو الوداعی سلام کرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئے اور گاڑی لاہور کی طرف چل پڑی.

یہ جملہ جیسے میرے دل کی دیوار پر ہمیشہ کے لیے کندہ ہو گیا۔ ایک ایسی روشنی، جو وقت کی تاریکی میں امید بن کر جگمگانے لگی۔ یوں سفر کا آغاز ہوا۔ ایک ایسا سفر جس میں کانٹے ہی کانٹے تھے، لیکن عزم کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا

عمران خان رلتے رہے، دھکے کھاتے رہے، کوئی زانی کہتا تو کوئی نشئی... کوئی چندہ خور کہتا تو کوئی شرابی , تمام اخلاقی حدود کراس کرتے ہوئے ہم جنسیت کے الزام بھی لگے لیکن وہ الزام پہ ایک ہی بات کہتا

وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ

وہ ڈٹے رہے , لڑتے رہے , شکست کھاتے , گرتے لیکن پھر کھڑے ہو جاتے. دنیا کی تاریخ کی بدترین کردار کشی کی گئی، کوئی اور ہوتا تو خود کشی کر لیتا یا ہمیشہ کے لیے گم نام ہو جاتا لیکن وہ ڈٹا رہا، اپنی قوم کے لیے... انصاف کے لیے... بچوں کے لیے... بلوچستان کی محرومیوں کے لیے، سندھ کے ہاری کے لیے.گرانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن وہ نوجوانوں کیلئے امید کی کرن بنتے گئے.

لوگ اسے بدترین ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ اپنے عمل اور کردار سے نوجوانوں کے لیے بہترین موٹیویشن بنتا گیا , مجھے یاد ہے وہ تقریر جو بلوچستان کی قحط سالی پر تھی، کہ ایک خاندان اپنی معذور بچی کو مرنے کے لیے اکیلا گھر چھوڑ آیا. عمران خان کی آنکھوں میں وہ اذیت اور درد کبھی نہیں بھول سکتا جو درد اس معذور لڑکی کیلئے تھا. اسکی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو ایک باپ کے آنسو تھے.

وقت گزرتا گیا , گلیوں میں جھنڈے اٹھا کے دوڑنے والے معصوم پھول جوان ہو گئے.

پھر وہ دن آیا—2011 کا مینار پاکستان۔
وہی بچے جو کبھی گاڑی کے ساتھ نعرے لگاتے تھے، اب جوان ہو چکے تھے۔ لاہور کی فضا عمران خان کے نام سے گونج رہی تھی۔ مینار پاکستان نہیں، پورا لاہور جلسہ گاہ تھا۔ پاکستان کی ملکی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔ مینار پاکستان کے ساتھ ساتھ پورا لاہور ہی جلسہ گاہ بن گیا۔ مانگا منڈی سے شاہدرہ تک، قصور سے مینار پاکستان تک 60 کلومیٹر کے علاقے میں وہ دیوانے تھے جو صرف عمران خان کو سننے آئے تھے. یہ صرف جلسہ نہیں بیداری کا طوفان تھا. بیداری کا چنگھاڑنے والا سونامی تھا جس نے پوری دنیا حیرت زدہ کر دیا.

جلسہ ہو گیا تو سپر نیچرل طاقتیں لرزنے لگیں کہ یہ کیا ہو گیا؟ کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے۔ عمران کی گاڑی کے پیچھے دوڑنے والا معصوم بچہ جوان ہو چکا ہے۔ میٹنگز ہوئیں کہ اب اس عفریت کا کیا کریں؟ تسلی دی گئی کہ کوئی بات نہیں ابھی بہت وقت ہے، 2011 ہے. فکر نہ کریں 2013 میں الیکشن ہوگا.

2013 آ گیا۔ زرداری اپنی مدت پوری کر چکے تھے . اب نواز شریف کی باری تھی. جنرل کیانی پہلے ہی دباؤ میں تھے . چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری عمران خان سے ذاتی پرخاش رکھتے تھے، وجہ کوئی خاص نہیں تھی بس جلیسی تھی کیونکہ وکلاء تحریک کے نعرے سن سن کر افتخار چوہدری خود کو ملک کی تیسری بڑی پارٹی کا سربراہ سمجھتے تھے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد پارٹی بناؤں گا اور وزیراعظم بنوں گا۔ بدقسمتی سے شہرت کا نشہ انسان کی عقل کو کھا جاتا ہے انہوں نے جسٹس پارٹی بنائی لیکن پروانوں کے پاؤں تلے کہیں دب گئی.

نواز شریف اور افتخار چوہدری کے درمیان کچھ خفیہ ملاقاتیں بھی ہوئیں اور بہت کچھ طے پا گیا۔ سب اسٹیک ہولڈرز نے ایک مکمل روڈ میپ بنایا۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان پر پریشر تھا کہ منصفانہ الیکشن کرائے جائیں۔ فارم 47 کا کوئی رواج نہیں تھا، یہ تو پاکستان نے اب ترقی کی ہے فارم 47 میں، کیونکہ پاکستان کسی شعبے میں ترقی کرے نہ کرے بددیانتی میں ضرور ترقی کرتا ہے.

مرنجاں مرنج فخرالدین جی ابراہیم چیف الیکشن کمشنر تھے، بوڑھے آدمی تھے بس ہر وقت ہنستے رہتے تھے، شاید کوئی ذہنی مسئلہ تھا، عین الیکشن سے چند دن پہلے ان کا لیپ ٹاپ چوری ہو گیا جس میں الیکشن کی اہم معلومات تھیں.

انہیں سازشوں کے درمیان الیکشن قریب آ گیا، ساری پارٹیاں زور شور سے الیکشن کمپین میں مصروف تھیں سوائے زرداری کے کیونکہ وہ اپنی باری لے چکے تھے۔ مقابلہ نواز شریف اور عمران خان کے درمیان تھا 80/20 کا مقابلہ تھا۔ نواز شریف جہاں بھی جاتے بے دلی سے تقریر کرتے کیونکہ سب کچھ تو طے ہو چکا تھا تو پھر کیا ضرورت تھی لوگوں سے ہاتھ ملا کے ہاتھ گندا کرنے کی.
لیکن سپر نیچرل پاورز پریشان تھیں کہ عمران خان خطرناک سونامی بن چکا ہے، اگر معاملات ہاتھ سے نکل گئے تو پھر اسے روکنا مشکل ہو جائے گا۔ پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ لاہور جلسے میں عمران خان کو 30 فٹ کی بلندی سے گرا دیا گیا۔ ذرا تصور کیجئے... 30 فٹ... یعنی 3 منزلہ عمارت... اتنی بلندی سے سر کے بل گرنا اور موت یقینی ہوتی ہے۔ عمران خان بھی سر کے بل گرے... گردن کے مہرے فریکچر ہوئے , کمر کی ہڈی پہ چوٹ لگی، شاید اللہ رب العالمین نے عمران خان سے ابھی کام لینا تھا۔

الیکشن ہوئے، عوام کا جم غفیر صبح 7 بجے ہی لائنوں میں لگ گیا. ووٹنگ شروع ہوئی تو ن لیگ کے ویران کیمپ بدترین شکست کی کہانی سنا رہے تھے. شام ہوتے ہی افتخار چوہدری کے حکم پر آر اوز حرکت میں آئے کیونکہ اس بار حکومتی دروازے کے تالے کی چابی افتخار چوہدری کو تھما دی گئی تھی اور انہیں مینڈیت دیا گیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے عمران خان کو اقتدار میں نہیں آنے دینا.
عمران خان بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ جو لوگ الیکشن میں انوالو ہوتے ہیں وہ اچھی جانتے ہیں کہ جتنا بھی بڑا حلقہ ہو، رات 11 بجے تک پورے پاکستان کے ہر حلقے میں رزلٹ نکل آتا ہے۔ میرے تجزیے کے مطابق عمران خان دو تہائی اکثریت سے جیت رہے تھے کہ اچانک باؤ جی کو حکم ہوا کہ وکٹری اسپیچ دے دیں۔ نواز شریف صاحب نے رات دس بجے ہی وکٹری اسپیچ دے دی اور ساتھ حکم بھی دیا کہ ہمارے ہاتھ مضبوط کریں، یعنی ہمیں مکمل اکثریت دی جائے، لیکن سپر نیچرل پاورز دو تہائی اکثریت دے کر خود کو دوبارہ ڈسوانے کے لیے تیار نہیں تھیں، اس لیے مناسب اکثریت دے دی گئی۔

زرداری صاحب اس الیکشن کو آر اوز کا الیکشن کہ چکے ہیں، افتخار محمد چوہدری اپنا گناہ تسلیم کر چکے ہیں۔ 7 جنوری 2020 کو اللہ کے حضور پیش ہونے سے پہلے مرحوم فخرالدین جی ابراہیم اپنے اس گناہ کی قوم سے معافی مانگ چکے ہیں.

میں نے اس الیکشن میں عجب نظارے دیکھے... ہم خود بھی وکٹم ہیں رات کے آخری سہہ پہر رزلٹ کی بار بار جمع تفریق کے بعد بھرپور جشن منایا اور تسلی سے سو گئے۔ 24 گھنٹے بعد پتہ چلا کہ ہم تو ہار چکے ہیں۔

جہانگیر ترین 40 ہزار کی لیڈ سے جیت کر سوئے لیکن اٹھے تو ہار چکے تھے۔ سب لوگ عدالتوں کی طرف بھاگے لیکن پاکستان میں انصاف ملتا نہیں بکتا ہے۔ سامنے افتخار چوہدری تھے۔ اس کے بعد جسٹس تصدق حسین جیلانی آ گئے، ان کا لقب میڈیا میں "گم سم جج" (Silent Judge) بھی رہا کیونکہ وہ کم بولنے اور کم سو موٹو لینے کے لیے جانے جاتے تھے۔ کسی عدالت نے کوئی ریلیف نہیں دیا۔

عمران خان جیت کر بھی ہار گیا۔
مگر پھر بھی، اس نے نفرت نہیں پھیلائی، جنگ نہیں چھیڑی۔ الیکشن کے نتائج کو تسلیم کیا . قوم سے پرامن رہنے اور ریاست کا ساتھ دینے کی اپیل کی اور ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ پورے پاکستان سے صرف 4 حلقوں کا آڈٹ کرا لیا جائے.
ہسپتال کے بستر پر تھا، لیکن دل میں قوم کا درد تھا۔
اس نے وقت کا زخم چپ چاپ سہہ لیا اور ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں واپسی کی تیاری شروع کر دی
بیڈ ریسٹ ضروری تھا بیک بون انجری سے پورا دھڑ مفلوج ہونے کا خطرہ تھا. 3 ماہ کیلئے ریسٹ پہ چلے گئے اور نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ میدان میں اترنے کی تیاری کرنے لگ گئے.

پنجاب وفاق میں رائل فیملی آ گئی، سندھ پہ زرداری قابض ہو گیا اور خیبر پختون خواہ پہ پی ٹی آئی کی حکومت آ گئی۔ خیبر پختون خواہ کے بدترین وزیراعلیٰ کے باوجود عمران خان کی ہدایات پہ ترقی کی مثالیں قائم ہو گئیں۔ کبھی خیبر پختون خواہ کا چکر لگائیں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ خیبر پختون خواہ کا نوجوان اتنی بری معیشت کے باوجود آج بھی خوشحال ہے اور وہ پنجاب سے پیار کرتا ہے۔
عمران خان
لوگ کہتے ہیں اب عمران خان نہیں آئے گا۔
عمران خان کو جیل میں مار دیا جائے گا۔
عمران خان کو ذہنی تشدد سے پاگل کر دیا جائے گا۔
عمران خان کو سلو پوائزنگ کی جائے گی کہ وہ ہوش و ہواس کھو دیں گے.
لوگ مثالیں دیتے ہیں۔ فاطمہ جناح کو مار دیا۔
بھٹو پھانسی چڑھ گیا۔
ضیالحق کو مار دیا اور کچھ نہیں ہوا

عمران خان نہ فاطمہ جناح ہے نہ بھٹو ہے اور نہ ضیالحق۔

عمران خان کے ساتھ سب کچھ کر کے دیکھ لیا۔ جو کچھ کرنا ایک انسان کے ساتھ ممکن تھا .
بدترین گرمی میں 5 دن بجلی بند رکھی، نہ پنکھا نہ پانی نہ دن کا پتہ نہ رات کا پتہ. کپڑے پسینے کے نمکیات سے بوسیدہ ہو کے پھٹ گئے لیکن جیسے ہی وہ باہر نکلا اس نے مسکرا کے جیلر کے سلام کا جواب دیا اور واک کرنے لگ گیا.

عدت کیس... کیا آپ اسے معمولی سمجھتے ہیں؟ کسی بھی انسان پہ ایسا کیس ہو جائے تو وہ خود کشی کر لے گا لیکن پتہ نہیں اللہ رب العالمین نے عمران خان کو کتنے حوصلے سے نوازا ہے کہ وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ ہر سزا کے بعد ایک بار آسمان کی طرف دیکھتا ہے، مسکراتا ہے اور سب بھول کے دوسروں سے باتیں کرنے لگ جاتا ہے۔
کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے ہی وہ اوپر دیکھتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے

"میں ہوں نا تیرے ساتھ , انہہں کرنے دے جو یہ کرنا چاہتے ہیں."

اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ حکمرانوں کی غلطیوں سے عمران خان کا قد اتنا بڑا ہو چکا ہے کہ پاکستان کا ہر طاقتور اس کے سامنے بونا لگتا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، اعلیٰ حلقوں کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کو رہا کیسے کریں؟ سب جانتے ہیں کہ آج کا عمران خان جیل سے نکلنے کے بعد جس طرف نظر دوڑائے گا، وہ ایریا اس کی ملکیت ہوتا چلا جائے گا۔ وہ اگر مشرق کی طرف دیکھے گا تو پاکستان میں مشرق میں رہنے والے اس کے ہو جائیں گے، مغرب کی طرف دیکھے گا تو مغرب فتح ہوتا چلا جائے گا، اسی طرح شمال اور جنوب۔

اس وقت سب جان چکے ہیں کہ عمران خان کو روکنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن بھی ہو چکا ہے کیونکہ اس بار اس شخصیت پہ آ کر سب کی سائنس فیل ہو چکی ہے۔

کل بھی بتایا تھا 2026 ..... بس 2026 کا انتظار کیجئے... یہی پاکستان ہو گا... یہی عمران خان ہو گا اور پاکستان کی قسمت بدلے گی۔ نہ کوئی رائل فیملی ہو گی اور نہ کوئی سندھ کا مالک۔

علامہ اقبال نے اسی موقع کے لیے تو فرمایا تھا:
"ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز،
نہ کوئی بندہ رہا، نہ کوئی بندہ نواز۔"

7 months ago | [YT] | 0

M Aslam khan khichi

امن کا قیدی اور موجودہ جنگ
محمد اسلم خان کھچی
جب قومیں جنگ کی دہلیز پر کھڑی ہوں، تو انہیں صرف ہتھیار نہیں . قائد کی بصیرت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ بھارت کی اندرونی نفرت، فالس فلیگ آپریشنز، اور مودی سرکار کی جنگی جنونیت نے پورے خطے کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ایسے میں پاکستان کا سب سے مقبول اور جرات مند لیڈر عمران خان جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہے، اور باقی قیادت یا تو خاموش ہے یا مفادات میں گم۔ یہ کالم اُس تلخ سچائی کو بیان کرتا ہے جس سے آنکھ چُرانا اب ممکن نہیں — کہ جنگ صرف میدان میں نہیں، دل و دماغ میں لڑی جاتی ہے، اور اس وقت پاکستان کو جس بصیرت اور قیادت کی اشد ضرورت ہے، وہ صرف عمران خان کی صورت میں ہی ممکن ہے

رات کی تاریکی میں جب شہر کی گلیوں میں خاموشی چھائی ہو، تب کہیں کسی ماں کے دل میں ایک وسوسہ جاگتا ہے۔
"کیا کل میرا بیٹا زندہ لوٹے گا؟"
وہ ماں جو اپنے بیٹے کو اسکول بھیجتی تھی، اب سوچتی ہے کہ شاید وردی میں بھیجے، مگر کفن میں واپس آئے۔
یہ صرف ایک ماں کی سوچ نہیں
یہ ہر پاکستانی کی پریشانی ہے۔
کیونکہ جنگ کی چاپ، دروازے تک آ پہنچی ہے۔
اور افسوس کہ یہ وہ وقت ہے جب قوم کا اصل محافظ، لیڈر، وژنری…
عمران خان جیل میں بند ہے۔
عمران خان — وہ نام جو کبھی کرکٹ کی وکٹ پر، کبھی کینسر ہسپتال کے کمرے میں، اور کبھی اقوامِ متحدہ کے فلور پر کھڑا ہو کر قوم کی آبرو بنا۔
وہ لیڈر جس نے 2019 میں دشمن کے طیارے گرائے،
اور ابھینندن کو واپس کر کے امن کی فتح رقم کی۔
لیکن آج وہ لیڈر قید میں ہے…
اور جنہیں آزاد ہونا چاہیے، وہ سازشوں کے محل میں بےحس بیٹھے ہیں۔
دوسری طرف مودی،
جسے 2002 میں "گجرات کا قصائی" کہا گیا،
اب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا حکمران ہے
مگر اس کے سینے میں دل نہیں، نفرت کی دہکتی بھٹی ہے۔
اکھنڈ بھارت کا خواب لے کر وہ سرحدوں کو روندنا چاہتا ہے۔
سچ کو جھوٹ بنا کر، امن کو جنگ میں بدل کر
فالس فلیگ آپریشنز کے ذریعے پاکستان پر الزام تراشی،
پھر اس نفرت کو میڈیا میں خوبصورت رنگ دے کر ووٹ بٹورنا —
یہی مودی کی سیاسی بقا ہے۔

اور یہ کام وہ اکیلا نہیں کرتا
اس کا ساتھ دیتے ہیں ارناب گوسوامی جیسے زہریلے اینکر،
جنرل بخشی جیسے پاگل جرنیل،
اور میجر گورو آریہ جیسے نفرت کے سوداگر
جو نیوز رومز کو خونی مورچے بنا چکے ہیں۔

مودی کو جنگ کی دہلیز تک وہی میڈیا لے آیا ہے،
جو دن رات نفرت کی خوراک عوام کو کھلاتا رہا۔
اب وہ خود اس نفرت کے قیدی ہیں۔
مودی چاہے یا نہ چاہے , اب پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں،
کیونکہ قوم کو ایک ایسا دشمن چاہیے جو اس کی بھوک، بے روزگاری اور مفلسی سے توجہ ہٹا دے۔
ادھر پاکستان میں؟
قوم بکھری ہوئی ہے،
فوج پریشان،
لیڈرشپ گم…
اور عمران خان جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید وہی شخص ہے،
جس کے ایک اشارے پر قوم متحد ہو جاتی ہے،
جس کے ایک خطاب سے دنیا خبردار ہو جاتی ہے۔
لیکن ان لمحوں میں
زرداری جو مفاہمت کے نام پر مفادات بچاتا رہا،
نواز شریف جو لندن کے محلات میں رہ کر پاکستان کی غربت کا مذاق اڑاتا رہا،
شہباز جو ہر بحران میں بس "خدمت" کی جگت دیتا ہے،
اور مریم جو صرف سوشل میڈیا کی ویڈیوز میں زندہ ہے
یہ سب خاموش ہیں۔
ان کے کاروبار باہر،
ان کی اولادیں باہر،
ان کی وفاداریاں باہر…

قوم جسے لیڈر مانتی ہے، وہ قید ہے۔
اور قوم جسے لیڈر بنایا گیا، وہ قومی تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہا ہے۔
فوج، جو آج سرحدوں پر قربانیاں دے رہی ہے،
اسے بھی سوچنا ہوگا
کیا جنگ صرف ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے؟
نہیں…
جنگ لیڈر شپ سے جیتی جاتی ہے،
قوم کی یکجہتی سے جیتی جاتی ہے،
اور وہ یکجہتی آج صرف عمران خان کے نام پر ممکن ہے۔

اگر دشمن حملہ کرے
تو کیا یہ بکھری قوم،
یہ مذاق بنتی قیادت،
اور یہ مایوس میڈیا
مقابلہ کر سکیں گے؟
آج نہیں سوچا،
تو کل ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
غزہ کی ماں سے پوچھو جو بیٹے کی لاش اٹھا کر بھی خاموش ہے…
یوکرائن کے کسان سے پوچھو، جو فصل کی جگہ لاشیں دفن کرتا ہے…
اور پھر آئینے میں خود کو دیکھو
کیا ہم بھی وہی انجام چاہتے ہیں؟
یا وقت پر آنکھ کھول کر
اس قوم کو اس کا لیڈر لوٹائیں
عمران خان۔
کیونکہ اگر وہ نہ آیا،
تو تاریخ ہمیں بےغیرت، بےبس اور بےضمیر قوم لکھے گی۔

7 months ago | [YT] | 1

M Aslam khan khichi

روحانی زبان میں اگر دیکھا جائے، تو اینجل نمبر آپ کی روح کی زبان میں کائنات اور فرشتوں کا پیغام ہوتا ہے۔ یہ نمبر آپ کی زندگی کا ایک الہامی کوڈ ہے — جو بتاتا ہے کہ آپ کس مقصد کے لیے پیدا ہوئے، آپ کا روحانی مشن کیا ہے، اور کائنات کس سمت میں آپ کو لے جانا چاہتی ہے۔فرض کریں آپ کا اینجل نمبر 4 ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ:
آپ ایک "زمین سے جُڑا ہوا" انسان ہیں:
روحانی طور پر آپ کی روح کو استحکام، تحفظ، اور پائیداری کا مشن دیا گیا ہے۔ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو دوسروں کے لیے بنیاد بن سکتے ہیں — جیسے ایک مضبوط درخت جو طوفان میں بھی قائم رہے۔
آپ کا فرشتہ چاہتا ہے کہ آپ "محنت اور صبر" کی طاقت سے اپنی زندگی سنواریں:
یہ نمبر آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کی روح کو دنیا میں محنت، دیانت اور ثابت قدمی سے روشنی پھیلانے کا فریضہ دیا گیا ہے۔
3. فرشتہ نمبر 4 آپ کو "آسمانی تحفظ" کا یقین دلاتا ہے اس کے علاوہ آپ کے اردگرد ایسے نادیدہ فرشتے موجود ہیں جو آپ کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ جب بھی آپ تھک جائیں یا گم ہو جائیں، یہ نمبر آپ کو تسلی دیتا ہے کہ "ہم تمہارے ساتھ ہیں، چلتے رہو۔"
یہ نمبر روحانی نظم و ضبط کی نشانی ہے:
آپ کی روح کو زمین پر آ کر زندگی کو توازن میں لانے، نظام قائم کرنے، اور دوسروں کی خدمت کرنے کا چناؤ ملا ہے۔
آپ کو یہ نمبر کیوں دیا گیا؟
کیونکہ آپ کی روح نے پیدائش سے پہلے ایک ایسا مقصد چُنا تھا جس میں:
تحمل کی ضرورت تھی،
محنت سے دنیا بدلنے کا ہنر تھا،
اور روحانی سپاہی بننے کی صلاحیت تھی۔
فرشتہ نمبر 4 ایک "بلڈرز" کا نمبر ہے — ایسے لوگ جو دنیا میں روشنی، محبت اور حفاظت کی بنیادیں رکھتے ہیں۔
اگر آپ اس وقت زندگی میں کچھ "بھاری" یا "مشکل" محسوس کر رہے ہیں، تو یہ بھی اس نمبر کی ایک علامت ہے۔ کیونکہ 4 والے لوگ آزمائش سے گزر کر ہی روشن مقام پر پہنچتے ہیں۔
اگر آپ چاہیں، تو میں آپ کو آپ کے اینجل نمبر کے مطابق ایک روحانی دعا بھی لکھ کر دے سکتا ہوں۔

8 months ago | [YT] | 0