ناول "یہ پالا ہے" سے ماخوذ ایک اقتباس گاوں کے لڑکے آہستہ آہستہ غائب ہونے لگے۔ جو غائب ہوئے ان کے گھروں میں کہرام مچ گیا۔ سب کو معلوم تھا کہ ان کے بچے مولوی عبدالقدوس کی بدولت افغان ستان جہاد کیلئے جا چکے ہیں۔ مولوی پر الزام لگاتے تو مولوی ان کے مزید چھوٹے بچوں کو مدرسے سے باہر نکالتا جن کو تین وقت کی مفت روٹی مل رہی تھی اور ساتھ میں وہ ایمان سے بھی خارج کردیئے جاتے کہ مسلمان کو جہ اد سے منع کرنا اللہ سے جنگ کے مترادف ہے۔ میں نے پہاڑوں میں ماوں کو چیخ چیخ کر روتے دیکھا ہے جو بال کھولے اللہ سے شکایت کررہی تھیں۔ اگر خوش قسمتی سے کسی نوجوان کا لاشہ گاوں لایا جاتا تو ارد گرد کے علماء حق جمع ہوکر گاوں کی قبرستان میں وہ محفل بپا کرتے۔ پورا علاقہ روحانیت کی معراج پا لیتا۔ ساتھ میں لمبے بالوں اور داڑھیوں والے مسلح طالب ان بھی آتے جو خوفناک نظروں سے گھور کر خون خشک کرتے ۔ شہید کے والدین کو گلے لگا کر مبارکباد دی جاتی۔ شہید کا والد گم صم کھڑا خالی نظروں سے اپنے بیٹے کی بے جان لاش کو دیکھتا کبھی اس پاس لوگوں کو دیکھتا۔ ماں کو خاص طور پر بتایا جاتا کہ خبردار رونا نہیں کہ شہید پر رویا نہیں کرتے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں۔ بلکہ ان کو مبارکباد دی جاتی ہے۔ دنوں تک شہید کے جنازے کی باتیں کیجاتیں کہ کیا شاندار موت ملی ہے۔ گاوں سے دن بدن نوجوان کم ہونے لگے اور مولوی عبدالقدوس کی مالی حیثیت مستحکم ہوتی گئی۔ اب اولاد نرینہ کی بچوں کی پیدائش پر خوشیاں نہیں منائی جاتی تھی کہ ماوں کو پتہ تھا کہ بچے بڑے ہوکر افغانستان میں کام آئیں گے۔
Razia Mehsood
ناول "یہ پالا ہے" سے ماخوذ ایک اقتباس
گاوں کے لڑکے آہستہ آہستہ غائب ہونے لگے۔ جو غائب ہوئے ان کے گھروں میں کہرام مچ گیا۔ سب کو معلوم تھا کہ ان کے بچے مولوی عبدالقدوس کی بدولت افغان ستان جہاد کیلئے جا چکے ہیں۔ مولوی پر الزام لگاتے تو مولوی ان کے مزید چھوٹے بچوں کو مدرسے سے باہر نکالتا جن کو تین وقت کی مفت روٹی مل رہی تھی اور ساتھ میں وہ ایمان سے بھی خارج کردیئے جاتے کہ مسلمان کو جہ اد سے منع کرنا اللہ سے جنگ کے مترادف ہے۔ میں نے پہاڑوں میں ماوں کو چیخ چیخ کر روتے دیکھا ہے جو بال کھولے اللہ سے شکایت کررہی تھیں۔
اگر خوش قسمتی سے کسی نوجوان کا لاشہ گاوں لایا جاتا تو ارد گرد کے علماء حق جمع ہوکر گاوں کی قبرستان میں وہ محفل بپا کرتے۔ پورا علاقہ روحانیت کی معراج پا لیتا۔ ساتھ میں لمبے بالوں اور داڑھیوں والے مسلح طالب ان بھی آتے جو خوفناک نظروں سے گھور کر خون خشک کرتے ۔ شہید کے والدین کو گلے لگا کر مبارکباد دی جاتی۔ شہید کا والد گم صم کھڑا خالی نظروں سے اپنے بیٹے کی بے جان لاش کو دیکھتا کبھی اس پاس لوگوں کو دیکھتا۔ ماں کو خاص طور پر بتایا جاتا کہ خبردار رونا نہیں کہ شہید پر رویا نہیں کرتے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں۔ بلکہ ان کو مبارکباد دی جاتی ہے۔
دنوں تک شہید کے جنازے کی باتیں کیجاتیں کہ کیا شاندار موت ملی ہے۔ گاوں سے دن بدن نوجوان کم ہونے لگے اور مولوی عبدالقدوس کی مالی حیثیت مستحکم ہوتی گئی۔ اب اولاد نرینہ کی بچوں کی پیدائش پر خوشیاں نہیں منائی جاتی تھی کہ ماوں کو پتہ تھا کہ بچے بڑے ہوکر افغانستان میں کام آئیں گے۔
2 years ago | [YT] | 11